جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو وزیراعظم صاحب نے آغاز میں اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’’اللہ ہم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے‘‘۔ بدقسمتی سے عوام کے چھوٹے چھوٹے مسئلے جن کو حل کرنا حکومت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا مگر تھانہ کلچر کی تبدیلی، روزگار فراہم کرنا، لاقانونیت کا خاتمہ، صنعتوں کو فروغ دینا، تعلیمی شعبے میں بہتری لانا، غربت کا خاتمہ، عوام کو بنیادی ضروریات مہیاکرنا وغیرہ مگر چار سال میں موجودہ حکومت کسی ایک عوامی مسئلے کو نہ ہی حل کر سکی ہے اور نہ ہی عوامی مسئلے حل کرنا ضروری سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے اربوں روپے جھونکنے کے باوجود ’’لوڈ شیڈنگ‘‘ بھی جاری و ساری ہے۔ پانامہ کا ایشو سامنے آیا۔ یہ ایک بین الاقوامی معاملہ تھا۔ مخالف پارٹی P.T.I کو ایک موقع ملا۔ جسے وہ عدالت عظمیٰ لے گئی۔ اس مقدمے میں قوم کا کافی پیسہ ضائع کیا گیا بالآخر سپریم کورٹ کے پانچ ججز میں سے دو جج صاحبان نے وزیراعظم صاحب کو نااہل قرار دیا۔ تین نے تحقیقات مزید کرانے کے لئے J.I.T بنا دی۔ J.I.T نے دو ماہ کام کر کے اپنی رپورٹ 10 جولائی کو جمع کرا دی۔ رپورٹ کے مطابق شریف فیملی کوئی واضح ثبوت اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کے دفاع میں نہیں دے سکی۔ رپورٹ کے مطابق شریف فیملی کے تمام افراد کے بیانات تضادات پر مبنی ہیں۔ اب اپوزیشن جماعتیں تمام وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ سوائے ایک ’’مفاداتی‘‘ آدمی مولانا فضل الرحمن کے صرف موصوف وزیراعظم صاحب کا دفاع کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ’’مولانا‘‘ عرصے سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ سوائے مراعات حاصل کرنے کے کشمیریوں کے لئے کوئی جدوجہد موصوف نے کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا۔ بہرحال ’’مولانا‘‘ کے علاوہ تمام پارٹیاں وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ن لیگ کے اندر بھی دو دھڑے بن چکے ہیں۔ ایک وزیراعظم صاحب کو قانونی طریقہ اپنانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ دوسرا محاذ آرائی کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ محاذ آرائی کی طرف لے جانے والوں میں خواجہ لوڈ شیڈنگ، خواجہ سعد رفیق، دانیال عزیز، طلال چودھری وغیرہ پیش پیش ہیں۔ اِنہی صاحبان نے جے آئی ٹی بننے کے بعد خوش فہمی میں مٹھائیاں تو بانٹ دیں۔ شاید انہیں مغالطہ تھا کہ J.I.T کے ارکان ہمارے ماتحت ہی ہوں گے۔ ’’بات‘‘ بن جائے گی۔ مگر J.I.T کے اراکین نے دیدہ دلیری کے ساتھ واجد ضیاء کی سربراہی میں بروقت اپنا کام کر دکھایا۔ ن لیگ کے ’’بزرگ‘‘ سیاستدان، خواجہ لوڈ شیڈنگ، احسن اقبال، سعد رفیق اور دیگر دانیال عزیز، طلال چودھری، نہال ہاشمی، زعیم قادری نے جس انداز میں سپریم کورٹ اور J.I.T کے بارے لفاظی گولہ باری کی ہے اور جس طرح انہیں ڈرایا دھمکایا ہے شاید اس کی مثال پوری پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس سے قبل سپریم کورٹ پر ’’حملے‘‘ کا کریڈٹ بھی یہ پارٹی حاصل کر چکی ہے۔ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے۔ اداروں کے تقدس کا تو خیال کریں۔ یہاں معزز جج صاحبان اور J.I.T اراکین کے حوصلے کو بھی داد دینی پڑتی ہے۔ بہرحال قانونی ماہرین کے نزدیک اب وزیراعظم صاحب شاید عدالت عظمیٰ سے خود کو بچا نہ پائیں کیوں کہ دو جج صاحبان پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہیں۔ J.I.T کی رپورٹ بھی ان کے خلاف آ چکی ہے۔ قطری شہزادے کا ’’ڈراما‘‘ بھی فلاپ ہو چکا ہے۔ بجائے یہ کہ وزیراعظم صاحب قومی خزانے سے کروڑوں کی فیسیں مزید وکلا کی نذر کریں اور انتشار کی کیفیت پیدا ہو۔ بہتر یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب عدالتِ عظمیٰ سے نااہلی کا بدنما داغ لگنے سے قبل ہی عہدہ چھوڑ دیں۔ اس سے یقیناً اُن کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ اپنا کوئی آدمی بطور وزیراعظم لے آئیں۔ جس طرح زرداری صدارت کی کُرسی پر بیٹھ کر وزارت عظمیٰ کے کام بھی خود ہی کرتے رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف تو محض شو پیس تھے۔ اسی طرح نواز شریف صاحب بھی بقیہ ایک سال گزار لیں۔ اِس سے اداروں میں ٹکراؤ بھی نہیں ہو گا اور ن لیگ کو مزید ایک سال ’’عوامی خدمت‘‘ کے لئے مل جائے گا۔ ن لیگ کے اراکین کی طرف سے یہ للکارنا کہ ہمارا فیصلہ عوامی J.I.T کرے گی۔ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو، سپریم کورٹ، تھانے، تمام تفتیشی ادارے بند کر دیجئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم بادل نخواستہ بھی خم کرنا ہی ہوتا ہے۔ ن لیگ کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ متکبرانہ رویے کے علاوہ کشمیریوں پر اندھا دھند ظلم و ستم ہونے کے باوجود بھارت کے لئے انتہائی نرم گوشہ رکھنا ن لیگ کا وطیرہ ہے۔ کلبھوشن کو پھانسی دینے میں اب تاخیر کیوں ہے؟ جب اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف ہمارے کشمیری بہن بھائیوں پر ظلم ہوتے دیکھ کر بھی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں تو ہم عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا کیوں انتظار کریں۔ ہماری حکومت حب الوطنی کا ثبوت کشمیر کے معاملے میں کیوں نہیں دے رہی؟ ن لیگ کا یہ واویلا کرنا ہمارے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے۔ ’’جمہوریت‘‘ خطرے میں ہے۔ کیپٹن صفدر کا یہ کہنا کہ دو قومی نظریہ کا احتساب ہو رہا ہے۔ مضحکہ خیز اور شرمناک باتیں ہیں۔ طلال چودھری، دانیال عزیز، آصف کرمانی، عرفان صدیقی، سعد رفیق، خواجہ آصف، کے ہوتے ہوئے مزید کسی بھی ’’سازشی ٹولے‘‘ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ یہی لوگ اپنے اپنے ’’مفادات‘‘ کے لئے وزیراعظم صاحب کو غلط مشورے دے رہے ہیں۔ ہماری نظر میں موجودہ صورتِ حال میں وزیراعظم کا یہ ایک بہت ہی بڑا کام ہو گا کہ وہ خود بھی آئین کی پاسداری کریں اور اپنی پارٹی کے لوگوں کو بھی آئین کی پاسداری کا حکم دیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024