معاشی ترقی کے لئے بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول کی ضرورت
محمد عمیر اصغر
umairtahir.sh@hotmail.com
ماہرین کے مطابق آبادی میں اضافہ کسی بھی ملک کے لئے اس کے قدرتی و معاشی وسائل پر بوجھ بنتا ہے ۔بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کے لئے ہر دور حکومت میں اقدامات کئے گئے۔ لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ پاکستان میں اس وقت ساٹھ فیصد سے زائد لوگ غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جن میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے گداگر ،خانہ بدوش، مزدور اور ایسے ہی دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔ اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ آبادی میں دن بدن اضافہ کی بڑی وجہ بھی ہےں۔
محنت مزدوری کرنے والے غریب خاندان کے تمام افراد کام کرکے بھی اپنا پیٹ نہیں پال سکتے۔ والدین اپنے سب بچوں کو پڑھانے لکھانے کی بجائے محنت مشقت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسے غریب کنبے آٹھ آٹھ بہن بھائیوں سمیت دس افراد پر مشتمل ہوتے ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والے بچے اور بچیوں کی بستیوں کاجائزہ لیا جائے تو وہاں بچے ہی بچے نظر آئیں گے۔بے شک ان بستیوں میں ٹیلی ویژن اور کیبل کی سہولت بھی موجود ہے لیکن وہ خاندانی منصوبہ بندی ،فیملی پلاننگ کے نام سے نا آشنا ہیں اور انہیں کسی چابی اورتالے کی زبان سمجھ نہیں آتی۔
اگر ایک نظر ماضی پر دہرائی جائے تو ہمارے ہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافہ ہوتا گیا۔ پرانے وقتوں میں زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے نہ تھے جب کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی کو ترجیح دی گئی اور لوگوں میں خاندانی منصوبہ بندی کا شعور پیدا ہوا ہے۔ دوسری جانب ہمارے ملک میں غربت ،جہالت اور بیروزگاری وسائل کی نسبت سے روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اگرچہ اس مسئلہ کی وجوہات بہت ساری ہیں لیکن اکثر معاشیات کے ماہر پاکستان کی آبادی میں بے تحاشہ اِضافہ کو ہماری زبوں حالی کی سب سے بڑی وجہ گردانتے ہیں۔
پاکستانی معیشت کا زیادہ تر دارومدار زراعت کے شعبے پر ہے۔ لیکن زراعت کے شعبے میں ترقی، پانی کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ماہرین کے مطابق آنے والے برسوں میں پاکستان کا بنیادی مسئلہ پانی کا ہو گا۔ پاکستان کے موجودہ قدرتی وسائل دیکھتے ہوئے پاکستان کے پاس قابل کاشت رقبہ موجود نہیں ہوگا۔ اگر 40 سال بعد کا منظر سوچیں تو ہماری آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہو گا لیکن وسائل کم ہوتے جائیں گے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں آبادی کے بڑھتے مسائل میں تعلیم سرفہرست ہے اس وقت پاکستان میں 4 سے 7 کروڑ کی آبادی 5 سے 19 سال کے ان بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے جو تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور سکول جانے سے محروم ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان جیسا ملک جہاں پچھلے برسوں میں دو قدرتی آفات نے معیشت کو جھنجھوڑ ڈالا ہو دہشت گردی پاﺅں پھیلائے بیٹھی ہو۔ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہر روز کسی خودکشی کا باعث بنتا ہو اور پانی کے تیزی سے کم ہوتے وسائل مستقبل کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل سے ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ ہی نمٹا جا سکتا ہے۔
اس وقت پاکستان کی تقریباً 65فیصد آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے اور شہروں کی آبادی میں اضافہ روکنے اور ملکی وسائل اور آبادی کے درمیان توازن درست رکھنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر شعور اجاگر کرنا پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے ضروری ہے۔ چین میں 1949 سے لے کر 1976 یعنی 27 سال میں اس کی آبادی تقریباً دگنی یعنی 54 کروڑ سے 94 کروڑ ہوگئی۔ پھر ا±س وقت کی چینی قیادت نے اپنی معاشی ترقی اور بے تحاشہ بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک قانون بنایا جس کے تحت ہر خاندان میں صرف ایک بچہ ہوگا۔ ایک سے زیادہ بچہ جس کسی کا ہو گا ا±س کواچھا خاصا ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ چین میں ملک کے زیادہ تر عوام نے اس قانون کوقبول کر لیا۔ اس کے بعد چند دہائیوں میں چینی قوم نے اتنی ترقی کر لی کہ اس کا شمار دوسری بڑی معیشت بن گیا ۔اگر ہم اپنے قوت بازو پر بھروسا کریں اور رزق حلال کے حصول کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے آبادی کی روک تھام کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کام کریں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا۔