پنجاب:بلدیاتی انتخابات اور اربوں روپے کے منصوبے
پنجاب حکومت نے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا عندیہ دے دیا ہے اور اس کے لیے 15 مئی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے تاہم حتمی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ صوبائی وزیر بلدیات میاں محمودالرشید نے ایک تقریب کے دوران کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مقامی سطح پر بلدیاتی اداروں کی مضبوطی کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے بہترین بلدیاتی ایکٹ تیار کیا ہے جس میں بلدیاتی انتخابات میں میئر کے عوام کی جانب سے براہِ راست انتخاب کی تجویز سمیت مزید کئی تجاویز متعارف کرائی جارہی ہیں۔ دوسری طرف، وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے پانچ شہروں میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان شہروں میں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان اور گوجرانوالہ شامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم بڑے شہروں کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ بڑے شہر قومی معیشت کی ترقی کے حقیقی انجن ہیں۔ دیہی سے شہری علاقوں کی نقل مکانی کی وجہ سے شہروں کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔ بڑے شہروں میں رہائش، ملازمت کے مواقع اور شہری سہولیات کی کمی ہے۔ ان کے لیے خصوصی ترقیاتی پیکیجز پر کام کو تیز کیا جائے اور ان سکیموںکی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو فی الفور دور کیا جائے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے جمہوری نظام میں نرسری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے ذریعے مقامی سطح پر عوام کے نمائندوں کا چنائو کیا جاتا ہے جو مسائل کو مقامی سطح پر ہی حل اور کمیونٹی کی بہتری اور فلاح کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان مقامی نمائندوں کی سیاسی تربیت اس انداز سے کی جاتی ہے کہ مقامی قیادت سامنے آسکے جو بعدازاں ضلعی، صوبائی اور قومی سطح پر نمائندگی حاصل کرنے کی اہل ثابت ہوتی اور ملک کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا میں ’جمہوریت کی ماں‘ کہلوانے والی ریاست برطانیہ میں بلدیاتی نظام اس قدر مضبوط اور توانا ہے کہ وہاں کے تمام مقامی مسائل مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی حل کیے جاتے ہیں۔ اس نظام میں جتنی بہتری اور نکھار آتا جائے گا، معاشرہ اس قدر خوبصورت بنتا جائے گا۔ پاکستان میں سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے جو بلدیاتی نظام متعارف کرایا تھا وہ اس اعتبار سے بہترین قرار دیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں آیا اور بہت سے محکمے اور ادارے مقامی حکومت کے زیرانتظام آنے سے نہ صرف عوامی مسائل و مشکلات میں کمی واقع ہوئی بلکہ عوام کو بیوروکریسی کے فرعونی نظام سے بھی چھٹکارا مل گیا۔ یہ نظام اگرچہ مکمل طور پر نقائص اور عیوب سے پاک نہیں تھا، اس میں بعض ’فلاز‘ بھی موجود تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی اصلاح و ترامیم کے ذریعے اس میں بہتری پیدا ہوسکتی تھی لیکن اسے بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ فوجی آمر کی حکومت کے بعد آنے والی منتخب جمہوری حکومتوں نے مقامی حکومت کے اس نظام کو سیاسی مداخلت اور جماعتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس کے جو بھی مثبت پہلو تھے وہ بھی منفی قرار پانے لگے۔
2018ء کے انتخابات کے دوران پی ٹی آئی نے اپنے منشور میں بلدیاتی نظام کو مستحکم کرنے اور اس کے ذریعے مقامی قیادتوں کو آگے لانے کا وعدہ کیا لیکن حکومت ملنے کے بعد یہ جماعت بھی مصلحتوں کا شکار ہو گئی اور اقتدار میں آنے کے تین سال بعد تک بلدیاتی انتخابات سے بوجوہ گریزاں رہی جس کے باعث شہری مسائل میں بے حد اضافہ ہو گیا اور لوگ اپنے منتخب نمائندوں سے میل جول نہ رکھ سکے اور یوں حکومت اور عوام کے درمیان جو ایک پل تھا وہ قائم نہ رہ سکا۔ حکومت کی طرف سے بلدیاتی اداروں کی بحالی میں غیرمعمولی تاخیر اور انتخابات سے گریز کے رویے کے پیش نظر عدلیہ کی طرف سے اسے پابند کیا گیا کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کے منتخب نمائندے مقامی حکومتوں کا نظام سنبھالیں اور مسائل کے حل کی صورت نکل آئے۔ اب عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں پنجاب حکومت نے 15 مئی کو بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نے پنجاب کے پانچ شہروں میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔
جن شہروں کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا فیصلہ کیا گیا ہے ان کی ماسٹر پلاننگ کی منصوبہ بندی پنجاب حکومت کرے گی جبکہ فنڈز کے سلسلے میں وفاقی حکومت تعاون کرے گی۔ پنجاب حکومت کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حکمران جماعت ہی کے زیراہتمام خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کاپہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور دوسرے مرحلے کے لیے تیاریاں جاری ہیں۔ خیبر پی کے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے حکومت کی ناکامی نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب پنجاب حکومت کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے ساتھ اربوں روپے کے جن منصوبوں کا فیصلہ کیا گیا ہے اسے خیبر پختونخوا میں ہونیوالی ناکامی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے اور سیاسی حلقوں کے مطابق بلدیاتی انتخابات سے قبل اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے سیاسی طور پر فائدہ اٹھانے ہی کی ایک کوشش قرار دی جاسکتی ہے جبکہ بعض عوامی حلقے تو اسے ایک قسم کی سیاسی رشوت سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔ بالفاظِ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی بڑے شہروں میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تحریک انصاف پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے دوران خیبر پختونخوا جیسی خفت نہیں اٹھانا چاہتی۔ بہرحال حکومت کو عوامی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے ان خدشات و تحفظات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا لیکن اس وقت سب سے زیادہ اہم کام اور بنیادی ضرورت عوامی مسائل و مشکلات کا حل، مہنگائی، بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اور امن و امان کی بہتری کی جانب پیش قدمی ہے۔ جب تک عوام کی زندگی میں آسودگی پیدا نہیں ہوگی محض ترقیاتی منصوبے اور دلکش اعلانات ان کی سوچ میں مثبت تبدیلی نہیں لا سکیں گے۔