بھارتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ کے خلاف لندن پولیس کو درخواست
برطانیہ کی ایک لاء فرم بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کی گرفتاری کے لیے لندن پولیس ڈیپارٹمنٹ کے وار کرائم یونٹ میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا ہے کہ اس بات کے متعدد ثبوت ہیں کہ بھارتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ کشمیریوں پر مظالم، انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور عام شہریوں کے اغواء اور قتل کے ذمہ دار ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے انہیں گرفتار کیا جائے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسئلہ کشمیر برطانیہ کا ہی پیدا کردہ ہے ۔بھارت اور بائونڈری کمیشن کی ملی بھگت سے کشمیر سمیت مسلم اکثریت کے کئی علاقے بھارت کو دینے پر جب پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی شروع ہوئی تو بھارت کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔ جب یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی الگ الگ قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور کشمیر میں استصواب رائے کے اہتمام کا حکم دیا تو بھارت نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔ گزشتہ 75 سال سے کشمیری عوام نے ظالم بھارتی سیکورٹی فورسز کے جبر و تشدد اور ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ اب برطانیہ کو کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اور قتل عام کا احساس ہو رہا ہے اور اس کے پارلیمنٹیر ینز بھی کئی بار بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھاچکے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف اور وزیر داخلہ کے خلاف درخواست دینے والی لاء فرم کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل پر بھی زور دینا چاہیے کہ وہ اپنی اپنی منظور کردہ قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لیے بھارت کو آمادہ کریں۔ لیکن جو بھارت 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے خلاف یو این جنرل اسمبلی کے تین ہنگامی اجلاسوں میں کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کرنے کے لیے کیے گئے تقاضوں اور مطالبوں پر کوئی توجہ نہیں دے رہا، وہ کسی لاء فرم کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست کو کیا اہمیت دے گا؟ تاہم برطانیہ اپنے پارلیمنٹیرینز کے بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھانے اور اس درخواست کو بنیاد بنا کر عالمی اداروں اور اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر حل کرانے میں کردار ادا کر سکتا ہے ۔