جمعۃ ا المبارک، 17 جمادی الثانی 1443ھ، 21 جنوری 2022ء
قومی اسمبلی کا اجلاس کورم کی نذر چند منٹ ہی چل سکا
اب کہاں کہاں ہم اپنی نااہلیوں کا رونا روئیں۔ اپنے لا ابالی پن کی کہانیاں چھپائیں۔ کسی کو بھی ملکی وقار اور ملکی خزانے کی رتی بھر پروا نہیں ہے۔ سب مال مفت دل بے رحم کے مقولے پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے ہم سب کی زندگی کا مقصد ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ہے۔کسی کو پروا نہیں کہ ہمارے اس طرز عمل سے ملک کو قومی خزانے کو کیانقصان ہو رہا ہے۔ کوئی خاموشی سے اور کوئی ٹھونک بجا کر ملکی خزانہ لوٹ رہا ہے۔ کوئی ڈر کوئی خوف نہیں۔ قومی اسمبلی ملک کا سب سے سپریم ادارہ ہے۔ جہاں قانون سازی ہوتی ہے۔ ملک و قوم کی قسمت کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ہوناتو یہ چاہیے کہ یہاں اس ایوان تک جو لوگ پہنچتے ہیں وہ اس کے تقدس کا خیال رکھیں۔ یہاں بیٹھ کر عوام کے مسائل کا حل نکالیں ملک و قوم کی ترقی کی راہیں تلاش کریں۔ مگر افسوس ایسا کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آتا۔ یہاں آنے والے تمام ارکان کا مقصد صرف تنخواہ ، ٹی اے ڈی اے بل اور مفت رہائش و خوراک کے مزے لوٹنا رہ گیا ہے۔ نہ حکومت گرفت کرتی ہے نہ اپوزیشن۔ ورنہ کیا مجال ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہو اور ارکان اسمبلی غائب ہوں۔ کورم پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر وہ ہی غائب ہو تو کہاں کا کورم کہاں کی ذمہ داری۔ گزشتہ روز بھی قومی اسمبلی اجلاس سے ارکان اسمبلی کی عدم دلچسپی اس وقت دیکھنے کوملی جب اجلاس شروع ہوتے ہی کورم کی نشاندہی پراجلاس ملتوی کر دیا گیا یوں لاکھوں روپے جو اجلاس کے انعقاد پر خرچ ہوئے تھے کھوہ کھاتے چلے گئے۔
٭٭٭٭
مری کو راجا بازار بنا دیا گیا ہے: ہائیکورٹ
اس سے زیادہ بدنامی راجا بازارکی اور کیا ہوگی کہ اسے اب بدترین نمونے کی مثال بنا دیا گیا ہے۔ جی جناب بالکل درست فرمایا ہے عدالت نے جو ابتر صورتحال آئے روز راجا بازار میں نظر آتی ہے وہی صورتحال ہر سال دو سیزنوں میں مری میں پیش آتی ہے۔ گرمیوں کا سیزن یا برف باری کا مری اور راجا بازار جڑواں بہن بھائی نظر آتے ہیں۔ ناجائز تجاوزات‘ گندگی‘ مہنگائی‘ تاجروں دکانداروں کی لوٹ مار میں کوئی فرق نہیں نظر آتا۔ مری ہو یا راجا بازار ہر جگہ دکانوں کے آگے ہوٹلوں کے سامنے کے تھڑے اور فٹ باتھ تجاوزات مافیا کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں۔ سرکاری سڑک فٹ پاتھ اورگلیوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ اب سانحۂ مری کے بعد حکومت کی طرف سے انتظامی سطح پرکچھ سخت فیصلے سامنے آئے ہیں۔ معطلیاں اور تبادلے ہوئے ہیںتو کیا اس سے مری کی حالت بدل جائے گی۔ وہاں سڑکیں اور فٹ پاتھ واگزار ہو جائیں گے۔ ہوٹلوں دکانوں کو بناتے وقت بلڈنگ لاز کی پاسداری کی جائے گی۔ ٹریفک کا ابتر نظام کنٹرول ہو جائے گا۔
اگر ایسا ہو جائے تو پھر انتظامیہ سے درخواست ہے کہ وہ راولپنڈی شہر پر بھی توجہ دے اور ایسے ہی سخت اقدامات و انتظامات کرتے ہوئے راولپنڈی شہر سے تجاوزات کا خاتمہ کرائے۔ سڑکوں کو اصل حالت میں بحال کرکے بدترین ٹریفک کو قابو میں لائے۔ شہر کو گندگی اور ٹوٹی سڑکوں سے نجات دلائے تو راولپنڈی کے لاکھوں شہری حکومت کو دعائیں دیں گے س کی اس وقت حکومت کو بہت ضرورت ہے۔
٭٭٭٭
سعودی عرب میں انٹرنیٹ پر افواہیں پھیلانے والوں کیلئے سزا کااعلان
یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ انٹرنیٹ جس طرح بے لگام ہوا جا رہاہے۔ اس کو لگام ڈالنا ضروری ہو گیا ہے۔ یورپ کی بات اور ہے وہاں بہت سے معاملات میں آزادی ہے مگر مسلم معاشرے میں لبرل ازم اور سیکولر ازم کے دعویدار بھی اس مادر پدر آزادی کا سوچ نہیں سکتے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی اپنے بچوں بہن بھائیوں یا بزرگوں کو اتنی آزادی چاہتے ہوئے بھی نہ دے پائے گا۔
اسی طرح کی صورت حال انٹرنیٹ پر ہے جہاں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر جس کے جی میں جو آئے بولتا یا لکھتا چلا جاتا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ یورپ میں بھی بہت سے معاملات پر ہر ایک کو زبان درازی کی اجازت نہیں، روک ٹوک ہے۔ اب گزشتہ دنوں سعودی عرب کے شہر ریاض میں ایک موسیقی کے پروگرام کے بعد بعض لوگوں نے خواتین سے چھیڑ چھاڑ کی خبریں انٹرنیٹ پر پھیلائیں جو بعدازاں جھوٹی ثابت ہوئیں۔ اس کے بعد فوری طور پرسعودی حکومت نے افواہیں پھیلانے والوں کے لیے 5 سال کی سزا تجویز کر دی ہے جس پر اب عمل ہو گا۔ یوں کوئی کسی کی پگڑی اچھالی نہیں جا سکے گی اور جھوٹی افواہوں کا کاروبار بھی ٹھپ ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں بھی افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف سخت سزائوںکااعلان ہو جائے تو شاید اس طوفان بدتمیزی میں کمی آ جائے۔
٭٭٭٭٭
گلوکارہ آئمہ بیگ نے بنک اکائونٹس منجمد کرنے سے قبل تمام رقم نکلوا لی
اسے کہتے ہیں پھرتی۔ یہ ہوتی ہے چالاکی ۔اگریہ چلاکی نہ ہوتی تو آئمہ بیگ یوں اتنا بروقت فیصلہ نہ کرتی۔ موصوفہ کی ذہانت اور چالاکی کا ثبوت یہ ہے وہ 8 کروڑ روپے کی ٹیکس نادہندہ ہیںیعنی ہم انہیں عادی ٹیکس چوروں کی فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے 2018ء ، 2019 ء اور 2020ء میں اچھی آمدنی کے باوجود کوئی ٹیکس جمع نہیں کرایا۔ اس طرح ان پر واجب الادا ٹیکس 8 کروڑ روپے ہوگئے جبکہ ان کے بنک اکائونٹس میںاڑھائی کروڑ روپے موجود ہیں جونہی انہیں بھنک پڑی کے ایف بی آر والے ان کے اکائونٹس پر دھاوا بولنے والے ہیں انہوں نے فوراً ساری رقم نکلوا لی۔ یوں انہوںنے 8 کروڑ کیا دینے یہ اڑھائی کروڑ روپے بھی بچا لیے اور چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے کا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا۔ اس پر ہم آئمہ بیگ کو زیادہ برا نہیں کہہ سکتے ہمارے ہاں تو لاکھوں ٹیکس چور اتنے نڈر ہیں کہ وہ بنکوں سے اپنی رقم بھی نہیں نکلواتے اور اطمینان سے کروڑوںروپے ٹیکس چوری کرنے کے باوجود نیک نام کہلاتے ہیں۔ آئمہ بیگ کو ایسی حرکت کرتے ہوئے پہلے ان بڑے بڑے نیک ناموں سے ہی کچھ سبق حاصل کر لینا چاہئے تھا۔