ممکنہ تیسری عالمی جنگ

امریکہ اور روس کے درمیان یوکرائن کے مسئلہ پر جاری حالیہ کشیدگی اور سخت ترین تجارتی اور مالی امریکی دھمکیوں پر روسی صدر پیوٹن کے دو ٹوک معاندانہ رویہ سے لگتا ہے کہ مستقبل میں ایک بار پھر ماضی کی سپر پاور ایک بار پھر امریکہ کے سامنے کھڑی نظر آئے گی۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں چین کے خلاف امریکی تجارتی محاذ اب بھی ایک کھلی حقیقت ہے، جوزف بائیڈن دور میں نظر آنے والی کشیدگی میں معمولی کمی عارضی ثابت ہوسکتی ہے۔ دنیا شاید ایک ایسے تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے جس کا اندازہ نامور مفکرین اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کو بھی نہیں ہوپارہا۔ مثالیت پسندوں (Idealists ) کے برخلاف حقیقت پسند (Realist ) نظریہ کے پیروکار ہمیشہ جنگ کو ناگزیر گردانتے رہے ہیں، جو ہر صورت ہوکر رہتی ہے، اسے کچھ عرصہ کے لیے ٹالا تو جاسکتا ہے مگر خلاصی ممکن نہیں۔ عالمی سیاسی نظام کو ایک ’انارکی‘ سے تعبیر کرنے والے مفکرین جیسا کہ کینتھ والٹس (Kenneth Waltz) کی بنائی ہوئی عالمی سطح پر عالمی طاقتوں پر مشتمل یک قطبی(Unipolar)، دو قطبی(Bypolar)، تین قطبی (Tripolar)، اور کثیر قطبی (Multipolar) تقسیم بھی اس نئے ممکنہ تصادم کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اب وہ ہوسکتا ہے جو اس سے پہلے نہیں ہوا۔
ممکنہ تصادم دو سیاسی نظریات کے حامل ان مفکرین کے لیے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں جن کا خیال ہے کہ تباہ کن ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی جنگ کو روکے ہوئے ہے یا پھر جان میولر (John Mueller) جیسے خوش گمان مفکر کے نزدیک جنگ اب دنیا سے ایسے معدوم ہوگئی ہے جیسے انسانوں کی خرید وفروخت یعنی ’غلامی‘ کا خاتمہ ہوگیا ہے مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ امن کا زمانہ دراصل دو جنگوں کے درمیان کا وقفہ ہوتا ہے۔ ممکنہ نیا تصادم اس لیے بھی عجیب ہے کہ اس وقت عالمی سیاسی نظام تین قطبی ہے، ایک موجودہ سپرپاور ہے، ایک قریب ماضی میں سرد جنگ کے دنوں کی سپرپاور ہے، اور تیسری سپر پاور وہ ابھرتی ہوئی طاقت ہے جس نے موجودہ سپر پاور کو چیلنج کیا ہے، اور بڑی تیزی سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔ میری مراد بالترتیب امریکہ، روس، اور چین سے ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میرا یہ دعویٰ رہا ہے کہ امریکہ کو اپنا تسلط بحیثیت اکیلی سپر پاور کے طور پر برقرار رکھنے کے لیے روس اور چین دونوں سے نمٹنا ہوگا۔ اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں: ایک یہ کہ امریکہ روس کو ساتھ ملا کر چین کو شکست دے،دوسری یہ کہ چین کو ساتھ ملاکر روس کو شکست دے۔ اس طرح پہلے مرحلہ پر ایک للکارنے والی طاقت سے جان چھوٹ جائے گی اور جو ایک بچے گی، اس سے بعد میں معاملہ کرنا آسان ہوگا اور یوں اکیلے امریکہ کی اجارہ داری پوری دنیا پر رہے گی۔ تیسری صورت میں امریکہ کو روس اور چین دونوں کے ساتھ ایک ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا، جو بچے گا وہ سپر پاور ہوگا۔ چین اور روس بھی اسی فارمولہ پر اتحاد کریں گے کہ پہلے امریکہ کا خاتمہ کردیں، آپس میں پھر ِنمٹ لیں گے۔ تین قطبی نظام میں اس خطرہ کی نشاندہی نئے حقیقت پسند مفکر کینتھ والٹس نے بھی کی ہے یعنی جب تین قطبی نظام میں دو طاقتیں مل کر تیسری کے خلاف اتحاد بنالیتی ہیں۔ نئے حقیقت پسندوں کے نزدیک کثیر قطبی نظام ، جس میں تین سے زیادہ عالمی طاقتیں ہوتی ہے، عالمی امن کے لیے موزوں ہوتا ہے اور جنگ نہیں ہوتی۔
یورپ کو اپنی مرضی کی شرائط پر ساتھ رکھنے کے لیے امریکہ روس کا ہوا کھڑا کرتا ہے اور روس کو رعایت دینے والی پالیسی پر بھی عمل کرتا ہے۔ روس کے یوکرائن پر حملہ کے وقت امریکہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی، مقصد یورپ کو روس سے ڈرانا تھا۔ روس کا ڈر مغربی یورپ کی امریکہ پر مکمل دفاعی انحصار کی بنیادی وجہ ہے۔ چین کی معاشی ترقی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا بھی امریکہ کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ کسی دن چین کے ساتھ ہاتھ ملاکر روس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ روس ماضی کی دو عالمی جنگوں میں امریکہ کے اتحادی کے طور پر شامل رہا۔ عالمی استعماری نظام کے قیام میں روس اور چین ایک طرح سے امریکہ کے طرفدار تھے۔ چین جاپان کے ساتھ اپنی تاریخی مخاصمت کی بنا پر اور روس جرمنی کے اپنے ملک پر قبضہ کے ڈر کی وجہ سے حالانکہ تینوں ممالک ، امریکہ ، روس اور چین نظریاتی طور پر مختلف دنیاؤں سے تعلق رکھتے تھے اور ہیں۔ امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل، روس اور چین کمیونزم اور سوشلزم کے چیمپیئن ہیں لیکن ’نظریات‘ بڑی طاقتوں کے ’مفاد‘ کے حصول میں آڑے نہیں آتے۔ دنیا میں اب تک لڑی گئی جنگوں میں جن میں ساڑھے تین ارب انسان ہلاک ہو چکے ہیں، نوے فیصد سے زیادہ جنگیں ’مفادات‘ کی وجہ سے لڑی گئیں، شاید سات فیصد سے بھی کم کی وجہ نظریات یا مذہب تھے۔ ملکوں کے مفادات کا تعین ان کی سیاسی اور معاشی ضروریات کرتی ہیں۔ ضروریات میں تبدیلی مفادات کو بھی بدل دیتی ہے لیکن ’طاقت اور سلامتی‘ مستقل مفاد کی حیثیت رکھتے ہیں جو دیگر مفادات کے حصول میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر مفادات کا ٹکراؤ ’طاقت اور سلامتی‘ کو لاحق شدید ، واضح اور قریب آتے ہوئے خطرے یا پھر ان دونوں کے حصول کی شدید ترین خواہش اور استعداد کی بنا پر ہوتا ہے۔
اس دفعہ یہ دکھائی دے رہا ہے کہ پہلی وجہ ، یعنی اپنی موجود طاقت کو دوام بخشنے اور اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے طاقت کے موجود مراکز، یعنی امریکہ اور مغربی یورپ ایک نئی عالمی جنگ کی بساط بچھائیں گے۔ ماضی بعید میں سلطنتیں اس طرح کی جنگی پیش بندی کرتی چلی آئی ہیں۔ جارج بش کا ’پیشگی جنگ‘ کا نظریہ نیا نہیں تھا۔ امریکہ اس نظریہ سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ گو امریکہ کے دفتر خارجہ نے اس صدی میں چین کو اپنے لیے سب سے بڑے خطرہ کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن روس کے ساتھ یوکرائن کے مسئلہ پر حالیہ سفارتی جنگ نے سرد جنگ کے دنوں کی یاد پھر تازہ کردی ہے۔ امریکہ اور مغرب روس کے لیے وہ ہی حالات پیدا کرنے جارہے ہیں جو ساٹھ کی ابتدائی دہائی میں اس وقت کے روس (سویت یونین) نے ٹھیک امریکہ کی ناک کے نیچے کیوبا میں اپنے ایٹمی میزائل نصب کرکے پیدا کیے تھے۔ امریکہ روسی ایٹمی میزائلوں سے سو میل کی دوری سے بھی کم رہ گیا تھا۔ امریکہ ماضی کی معاہدہ وارسا میں شامل ریاستوں جن کا سربراہ سویت یونین تھا میں نیٹو فورسز اور اسلحہ بھیجنے کی تیاری کررہا ہے۔ پیوٹن کو اس بات سے ِچڑ ہے کہ ماضی کے وارسا اتحاد میں شامل ممالک کو امریکہ نہ صرف نیٹو اتحاد میں شامل کررہا ہے بلکہ اپنی فوجیں بھی اس کے سرحدی علاقوں تک لارہا ہے۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی دھمکی نے سویت یونین کو اپنے ایٹمی میزائل کیوبا سے ہٹانے پر مجبور کردیا تھا ، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پیوٹن بھی اسی طرح کی دھمکی دے کر امریکہ کو باز رکھ سکیں گے کہ نہیں۔
مغرب کی جدید جمہوری ریاست جس عمارت پر کھڑی ہے وہ ’سرمایہ‘ ہے۔ سرمایہ کی ایشیاء کو منتقلی شروع ہوچکی ہے۔ عالمی معاشی و کاروباری نظام کے مفکرین سرمایہ کے سلامتی کے ساتھ گہرے تعلق کے حامی ہیں۔ سرمایہ ہی سرمایہ کو بڑھانے اور محفوظ رکھنے کے کام آتا ہے، اگر سرمایہ دفاعی صلاحیت بڑھانے پر بھی خرچ کیا جائے۔ مغرب سے سرمایہ کی منتقلی ، مغرب کے برتر فوجی و دفاعی ہتھیاروں کی موجودگی کی اہمیت کو چنداں کم کردے گی۔ جیسے ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود پاکستان معاشی تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ بھلا ایک ہاتھ میں کشکول اور دوسرے ہاتھ میں کلاشنکوف پکڑ کر بھی کوئی جی سکتا ہے۔ تیسری عالمی جنگ بھی سرمایہ پر مکمل دسترس کے حصول کے لیے ہوگی۔ آبادی کی نسبت دنیا کے وسائل ابھی بھی کم ہیں۔ سیاسی، معاشی، اور سائنسی ترقی بھی سب انسانوں کے لیے مساوی وسائل کو یقینی نہیں بناسکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی سرمایہ جو حکومتوں کی بجائے سرمایہ دار افراد کے پاس ہے جو کثیر ملکی کاروباری کمپنیوں کے مالکان ہیں، کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ اپنی حکومتوں کو تیسری عالمی جنگ میں کودنے دیں گی تاکہ نئے عالمی نظام میں بھی ان کی اجارہ داری قائم رہے یا پھر اپنے سکڑتے ہوئے منافع کو بچانے کی کوئی اور ترکیب سوچیں گی؟