عوامی وزیراعظم

عمران خان عوام کے مقبول اور پسندیدہ وزیراعظم بننے کے جتن کرتے رہتے ہیں ۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو جیسی مقبولیت اور شہرت کے خواہش مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ بھٹو صاحب کی طرح لوگوں کے دلوں پر راج کریں ۔ اس خواہش کی تکمیل کیلئے انہوں نے تین کام کیے ۔ نمبر ایک تقریر میں رنگ بھرنے کی کوشش کی مگر وہ بھٹو صاحب جیسا جوش ،الفاظ اور انداز نہ لا سکے اگرچہ انکا اپنا انداز بیاں منفرد ہے جو عوامی توجہ کا سبب ہے کہ لوگ موصوف کے سٹائل کو سراہتے ہیں ۔ نمبر دو خان صاحب نے عوامی توجہ حاصل کرنے کیلئے ایک پروگرام ’’ آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ‘‘ شروع کیا جس میں وہ خود عوام سے مخاطب ہوتے تھے عوام کی شکایات سنتے اور ان کو جواب دیتے اور ساتھ متعلقہ اداروں یا فورمز کو ان مسائل کے حل کا حکم دیتے ۔ ایک وزیراعظم کا عوام کیلئے وقت نکالنا یقینا قابل تحسین تھا اور عوام کے حقیقی مسائل سے آگاہی کا اس سے بہتر زریعہ نہیں ہو سکتا تھا مگر اہل حکمت ودانش نے پہلے دن ہی اس پروگرام کو رد کر دیا تھا کہ عمران خان کو اس سے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں نہ ہی عوام کو اس پروگرام سے کوئی فائدہ ہونے والا ہے ۔ اہل حکمت ودانش صحیح نکلے کہ اس پروگرام سے الٹا عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا کہ ارباب اختیارات کے عتاب کا نشانہ بنے ’’تم نے وزیراعظم کو ہماری شکایت کی ہے وزیراعظم ہی تمہارا کام کرے گا ‘‘۔ نمبرتین وزیراعظم عمران خان نے عوامی مشکلات کا خاتمہ کرنے کیلئے اپنے دورحکومت کے آغاز ہی میں پورٹل ایپ لانچ کی کہ وہ لوگ جو بیوروکریسی ،پولیس، محکمہ مال یا دیگر اداروں کے ظلم وستم کا شکار ہیں وہ اس ایپ پر اپنی شکایت بھیجیں۔ بہت کم وقت میں ان کے مسائل کا حل ادارے اس کے دروازے تک لے کر پہنچیں گے ۔ جس کو عوام نے بہت معتبر ذریعہ تصور کیا اور اپنی شکایات پورٹل پر روانہ کر دیں جس پر پورٹل پر شکایات کے انبار لگ گئے مگر وہ لوگ جنہوں نے بڑے بھروسے اور امید سے اپنے مسائل پورٹل پر سینڈ کیے تھے جلد ہی مایوس ہو گئے کہ ان کے دروازے تک نہ تو انصاف پہنچا نہ ہی کوئی ادارہ بلکہ ان کی مشکلات میں دوگنا اضافہ ہوا اور وہ لوگ جو اس پورٹل سے دور رہے وہ ’’روایتی ‘‘ طریقہ سے اپنے مسائل اور معاملات نمٹانے میں کامیاب رہے کہ ان لوگوں پر اداروں کے کارندوں کا یقین اور اعتماد تھا مگر پورٹل والے اداروں کے کارندوں کی نظر میں شکایتی ہیں جو کسی بھی طرح قابل اعتبار نہیں ہیں لہٰذا انہیں ذلیل وخوار کرنا اس موجودہ سسٹم کی بہتری اور بقاء کیلئے بہت ضروری ہے تاکہ دوسرے لوگ اس سے سبق سیکھیں ۔ میں ایک اوور سیز کی آپ بیتی بیان کرتا چاہتا ہوں جس سے آپ کو سسٹم کی کامیابی کا اندازہ ہو گا ۔
سید عباس انور ایک عرصہ سے ہمراہ خاندان لندن میں مقیم ہیں جو کاروباری اور ادبی آدمی ہیں ۔ لندن میں ان کا کاروبار ہے جس میں ان کے بیٹے شریک کار ہیں اس کے ساتھ وہ ادب سے بھی منسلک ہیں کالم نگار ہیں پاکستان کے ایک موقر اخبار میں ان کاریگولر کالم چھپتا ہے ۔ سال میں ایک دو دفعہ اپنے وطن کو اور وطن میں آباد دوستوں کو ملنے آتے ہیں گذشتہ دنوں ان کے برادر نسبتی کا انتقال ہوا جس پر ہمراہ اہل و عیال پاکستان آئے برادر نسبتی کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد جلد کاروباری معاملات کے لیے انگلینڈ لوٹ جانا چاہتے تھے کہ برادر نسبتی کے سسرال کی طرف سے ایک نا خوش گوار خبر آئی کہ انہوں نے سید عباس انور کے برادرنسبتی کی زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے جو کہ تحصیل لودھراں میں واقع ہے ۔ اس زمین میں شاہ صاحب کی بیگم کے بھی تیس ایکڑ شامل ہیں جن کا انتقال اور رجسٹری محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق بیگم صاحبہ کے نام ہے ۔ یہ خبر پا کر موصوف نے اپنی اوراہل عیال کی ٹکٹیں آگے کروائیں تاکہ چند دنوں میں یہ معاملہ حل کر کے واپس جائیں گے ۔ لیکن مقامی طور پر انتظامیہ کے ملنے پر یہ معاملہ حل نہ ہو سکا سید عباس انور نے اپنی شکایت وزیراعلیٰ پنجاب کے اوور سیز پاکستانی کمپلینٹ پورٹل پر بھیج دی ۔ جس سے موصوف کو کافی امید تھی کہ اب انتظامیہ خود بلا کر قبضہ دلوائے گی اور قبضہ گروپ ان سے معافی مانگے گا ۔ مگر شاہ صاحب کی اس امید کے درخت پر پھل نہ لگا مگر اتنا ہوا کہ وہ شکایت اسسٹنٹ کمشنر لودھراں سیدہ آمنہ مودودی کی ٹیبل پر پہنچ گئی سیدہ آمنہ مودودی معروف عالم دین اور مذہبی سکالر مولانا مودودی کی پوتی ہیں ۔ موصوفہ نے شکایت کنندہ سید عباس انور کو بلا کر کہا کہ یہ مسئلہ تیس دن میں حل ہو جائے گا فریقین کو بلا کر سنا جائے گا اور آپ کی شکایت کا ازالہ ہوگا مگر تیس دن کے بعد بھی ان کو کسی نے نہ تو بلایا اور نہ ہی سنا ۔ وہ فائل آمنہ مودودی صاحبہ کی ٹیبل کی دھول کھا رہی ہے اب اس کو چار ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے اس شکایت کا یہ ردعمل سامنے آیا کہ سید عباس انور اور ان کی اہلیہ کے خلاف دھمکیاں دینے اور جان سے ماردینے کے جرم میں تھانہ لودھراں میں جھوٹے مقدمات درج کروا دیے گئے ۔ اب وہ تین دفعہ اپنی ٹکٹیں آگے کروا چکے ہیں اور زمین حاصل کرنے کی بجائے جھوٹے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں سیدہ آمنہ مودودی اور دیگر ارباب اختیاربااثر قبضہ گروپ ملزمان کے آگے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سید عباس انور کی اہلیہ سابق وزیراعظم یوسف رٖضا گیلانی کی قریبی عزیزہ ہیں اور یوسف رضا گیلانی سے مدد کی اپیل بھی کر چکی ہیں مگر گیلانی صاحب نے ملزموں کی شناخت سن کر چپ سادھ لی کہ میں اس میں کچھ نہیں کر سکتا۔ آپ وزیراعظم کے پورٹل پر رابطہ کریں آپ کا کام ہو جائے گا ۔ جس سے محترمہ نہایت مایوسی کا شکار ہیں۔ محترم اوور سیز شکایت کنندہ سید عباس انور پاکستان میں قیام کرنے یا پاکستان سے واپسی کے معاملہ پر سخت پریشانی کا شکار ہیں یہ وہی اوور سیز ہیں جن پر محترم خان صاحب کو بہت امیدیں اور بھروسہ ہے ۔ میری وزیراعظم اور دیگر ارباب اقتدار سے گذارش ہے کہ ایک اوور سیز کو اس کا جائز حق دلوا کر دعائیں اور شہرت حاصل کریں ۔ آپ کا اقبال روز بروز بلند ہو ۔