اومیکرون اور عوام

حالات واقعی بے حد مخدوش صورت اختیار کر چکے ہیں ۔ نوجوان افراد کے علاوہ چھوٹے بچے بھی ’’اومیکرون‘‘ سے متاثر ہو رہے ہیں ۔ خصوصاً کراچی میں تو تصویر بہت ہی بُری ہے کئی قریبی لوگوں کے توسط سے معلوم ہوا کہ ’’ینگ اموات‘‘ کی شرح بڑھ رہی ہے۔ تواتر سے حکومتی ہدایات کے باوجود انتہائی افسوس اور دکھ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ عوام اور حکومت دونوں طرف ہی سخت مقابلہ ہے کہ کِس فریق نے خلاف ورزیوں کا ریکارڈ توڑنا ہے ۔ عجب دور ہے۔ عجب وقت ہے ریکارڈ بنانے اور توڑنے کا موسم برابر چل رہا ہے۔ جھوٹ، مکر‘ دھوکہ دہی ‘ منشور کی عدم تعمیل ۔ وعدوں کی پامالی حکومتی نظم کی عدم دستیابی ۔کیا متذکرہ بالا خصائص ’’او میکرون‘‘ سے کم نقصان دہ ہیں ۔ ہر وہ چیز جو ’’کرونا‘‘ کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتی تھی اور ہے۔ نہ پہلے نہ اب کوئی بھی روکنے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ۔ شادیاں، سماجی تقاریب، سالگرہ تقاریب ، شاپنگ سب کا موسم عروج پر ہے۔ دھند سے درخت کے پتے ۔ ٹہنیاں نظر نہیں آرہیں مگر لوگ گھروں میں بیٹھنے پر تیار نہیں ۔ بازار میں اژدھام ہے۔ ہوٹلز میں گھنٹوں انتظار کے بعد ٹیبل ملتی ہے۔ با امر مجبوری نکلنا پڑ جائے تو ایک سگنل سُرخ ہونے پر میلوں تک ہر اقسام کی گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں ٹریفک رواں ہونے پر بھی سٹرکیں کاروں ،موٹر سائیکلز سے بھری رہتی ہیں ۔ اِسکے باوجود سب کچھ کرنے کے بعد بھی رونا دھونا کِس کام کا ؟ احتیاط تو بالکل ہی ختم ہوگئی ہے۔ پہلے بھی لوگ ’’ماسک‘‘ پہننا توہین سمجھتے تھے اب تو لاپرواہی انتہا درجے پر پہنچ چکی ہے۔ حد سے زیادہ احتیاط کرنے والے اور حد سے زیادہ غفلت کرنے والے دونوں ہی ’’ایک صفحہ ‘‘ پر آ چکے ہیں ۔جس طرح ماضی میں ٹیکس دینے والے اور نہ دینے والے دونوں ہی چور ٹھہرا دیئے گئے تھے۔ آئین کے مطابق سمجھ آتی ہے اور جمہوریت کی روح بھی سمجھاتی ہے کہ عوام کے تحفظ ۔ جان و مال کی ذِمہ دار’’ ریاست ‘‘ہے مگر یہاں تو معاملہ ہی یکسر ’’90ڈگری‘‘ اُلٹ ہے۔ تحفظ تو پیش نظر کبھی رہا نہیں ۔ ’’مال ‘‘ کی حفاظت بھی ’’رب ذی شان‘‘ کے حوالے بلکہ موجودہ عہد میں تو سبھی کچھ ذِمہ داری سے نکل گیاہے حکومتی اہلکار ماسک پہننے کو تیار نہیں ۔ سیاسی تقاریب عروج پر ۔ پریس کانفرنس کندھے سے کندھا جڑے لوگوں کے ساتھ ۔ عوام کو ایک روپے کی تقسیم کی خیراتی تقریب بھی ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کر کے‘ اب کوئی کیا کرے ؟
’’پوری قوم مرگی کی کیفیت میں ہے‘‘
بعض واقعات ۔ باتیں ۔ خبریں اتنی اثرات کی حامل اور یاد رکھنے والی ہوتی ہیں چاہے سالوں گُزر جائیں بُھولتی نہیں ۔ زیادہ وقت نہیں گزارا ’’پبلک اکاؤنٹس کمیٹی‘‘ نے پاکستانی مواصلاتی نظام کی خرابیوں اور عوام کو موٹر وے پر پیش آنے والے واقعات کے ذمہ دار ’’این ایچ اے‘‘ کو قرار دیا تو رائی برابر بھی حیرت نہیں ہوئی ۔اِس فقرے نے زیادہ توجہ کھینچی کہ موٹر وے پر سفر کریں تو لگتا ہے گاڑی کو ’’مرگی کا دورہ پڑ گیا ‘‘۔ کونسی نئی بات ہے لمحہ حاضر میں پوری قوم’’ حالت مرگی ‘‘میں ہے۔ دیکھا تو نہیں ۔پر سُنا بہت ہے بھلے وقتوں کی بات ہے۔ عوامی نمائندے غم ۔ خوشی میں لازمی شریک ہوتے۔ اپنے حلقہ کے ووٹرز کے ساتھ پیدل چل کر سرکاری دفاتر میں جاتے۔ گھنٹوں لگ جاتے پرموقع پر بیٹھ کر مسائل حل کرواتے تھے اور اب ؟
’’عمر گھٹاتی سموگ‘‘
ائر کوالٹی ماہرین نے شروع میں کہہ دیا تھا کہ سموگ پاکستانی عوام کی اوسط عمر کم کر رہی ہے یہ بھی کوئی ایک آدھ ماہ کی بات نہیں لگ بھگ سوا چار سال جبکہ پاکستان کے پیرس یعنی ’’لاہور‘‘ والوں کے لیے خطرہ زیادہ ۔ لاہوریوں کی عمر’’5سال‘‘ گھٹنے کا خدشہ ۔ بقول ماہرین ’’لاہور ‘‘ میں ایک دن گزارنے کا مطلب ’’10 سگریٹ‘‘ پُھونکنا ہے۔ اِس وارننگ کو اگر ہم جمہوریت کے نافذ نظام ۔ ریاست کے چلن میں دیکھیں تو عوام کو خوشی منانی چاہیے تکلیف دہ زندگانی کے مفت میں بغیر کِسی نقصان کے ’’5سال‘‘ گھٹ گئے ۔
ہمیشہ کی طرح وہی انداز ۔ وہی بیان ۔ حقائق تو بیان کر دئیے ۔ اِس بات کو بھی ہفتہ سے زائد گزر گیا مگر ’’سانحہ مری‘‘ رپورٹ پر عمل درآمد کی بابت اندھیرا رہا ۔ شفاف تحقیقات کی شفاف رپورٹ آگئی ۔15 سے زائد ذِمہ دار’’افسران‘‘ معطل کر دئیے گئے ہیں ۔عوام اس فیصلے پر کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں مگر قانون کے مطابق ہی سزا دی گئی ہے۔حسب روایت معطل ہونے والے بحال بھی ہو جائیں گے ۔ اصل بات تو یہ ہے کہ رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔ تلخ سہی پر سچ ہے کہ ہم سب ہی ’’مری والے ہیں ‘‘ بس ذرا برفباری ہونے دیں۔ میدانی علاقوں میں کبھی شدید بارش ۔ آندھی میں کوئی پھنس جائے ۔ گاڑی میں پٹرول ختم ہو جائے ۔ ٹائر خراب ہو جائے ۔ راستہ بُھول جائیں ۔ جس کو موقع ملتا ہے۔ ’’جیب ‘‘ کی طرف سب سے پہلے بڑھتا ہے نہیں دیکھتا کہ مُردہ ہے یا زندہ ۔ مشکل میں گرفتار آدمی بھی مُردے مثل ہوتا ہے ۔ مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھانا ۔ زخمی شخص کی گھڑی اُتارنا ۔ جیب سے نقدی نکالنا ۔ ہم سب ’’مری والے ہیں ‘‘۔ ’’100 گاڑیاں‘‘ کسی چوک پر کھڑی نظر آجائیں تو آنکھوں کے گرد تارے ناچ اُٹھتے ہیں اور وہاں تو ڈیڑھ لاکھ سے زائد چھوٹی بڑی گاڑیاں داخل ہو چکی تھیں کم سے کم تعداد بھی گن لیں تو واپسی والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی تو سوچیئے حالت کیا تھی ؟ پنڈی سے مری تک پورا راستہ بہت زیادہ ویران نہیں رہا مگر اب بھی کئی جگہیں بالکل ویران ہیں اُس جگہ برف میںپھنسنے والوں کی حالت کاخود ہی اندازہ کرلیں ۔