اپوزیشن کے لیے آخری موقع

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ہر روز رنگ بدلتاہے شائد گرگٹ میں بھی اتنے رنگ نہ ہوتے ہوں جتنے پاکستان کی سیاست میں ہوتے ہیں۔ سیاست کے بدلتے ہوئے رنگوں اور اتار چڑھاؤ نے پورے ملک کے عوام کو کنفیوژ کر رکھا ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی سوچ اور اپنی اپنی پسند کے مطابق فارمولے مرتب کرتا رہتا ہے پاکستان کی سیاست میں اتنی غیر یقینی صورتحال پیدا رکھنا شائد وقت کی ضرورت بھی ہے۔ ہمارے ملک، خطے اور عالمی حالات میں جس تیزی سے تبدیلیاں ہوتی ہیں وہ بھی اس بے یقینی کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے جو حکومت کی بد انتظامی اور نا اہلی کے باعث ہے۔ ہمارے معاشی حالات اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائے رکھنے کیلئے بھی اسی غیر یقینی صورتحال کی ضرورت ہوتی ہے تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتیں کبھی بھی کرنے میں آزاد نہیں رہی ہیں۔ بعض فیصلے کرنے کے بعد انہیں واپس لینا پڑتا ہے اور اکثر نہ چاہتے ہوئے بھی کسی اندرونی و بیرونی دباؤ پر ان فیصلوں کے کڑوا گھونٹ پینا پڑتے ہیں جن کے اثرات براہ راست عوامی رد عمل کی صورت میں حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں پھر عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے کسی نئے ایشو کا سہارا لیا جاتا ہے مگر اپوزیشن بھی ان ایشوز سے سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے تیار بیٹھی رہتی ہے اس کھنچاتانی میں نئے نئے فارمولے بھی جنم لیتے ہیں یہ حقیقت بھی ہے کہ ان فارمولوں کے پیچھے کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ بہت سے فارمولوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور بہت سے مقبول فارمولے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور اچانک کوئی نیا نسخہ روبہ عمل آجاتا ہے آج کل بھی چونکہ ملک میں بے یقینی کی سی فضا ہے جس میں سب سے بڑا سوال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے مستقبل پر لگا ہے کہ کیا یہ حکومت اپنی باقی ڈیڑھ سال کی مدت پوری کر سکے گی یا نہیں؟ اگر پاکستان تحریک انصاف اپنی حکومت قائم نہ رکھ سکی تو پھر اس کا متبادل کیا ہوسکتا ہے؟ کیا سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف وطن واپس آرہے ہیں یا نہیں؟ کس کی کس کے ساتھ ڈیل ہو رہی ہے؟ کس کو کہاں سے ڈھیل مل رہی ہے؟ آج کل روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، علاج معالجہ، بچوں کی تعلیم اور مہنگائی کی پریشانیوں کے ساتھ عوام کو اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کی پریشانی بھی لاحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مسائل کا حل حکومت کی تبدیلی میں ڈھونڈتے ہیں مگر ایسا کیسے ممکن ہے؟ اب آتے ہیں کہ اس وقت مارکیٹ میں کون کون سے فارمولے گردش کر رہے ہیں اور کیا ممکن ہے۔ سب سے پہلے تو ہم نظام کی تبدیلی پر بات کر لیتے ہیں ہمارے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ملک میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام نافذ ہونا چاہئے جس میں اختیارات کا مرکز واحد ہوگا اور اسے کسی پارلیمنٹ یا ارکان اسمبلی اور چھوٹے گروپوں کی بلیک میلنگ سے نجات مل جائے گی خیال تو اچھا ہے مگر اس میں دو پہلوؤں پر غور کرنا چاہئے پہلا یہ کہ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں قریباً 40 سال صدارتی نظام ہی رائج رہا ہے جس کے لئے کبھی مارشل لاء تو کبھی ایمرجنسی کا سہارا لیا گیا کبھی آئین کو معطل کیا گیا تو کبھی عدلیہ نے کندھا دیا مگر صدارتی نظام کے ان 40 سال کا دورانیہ پاکستان کیسے کوئی بھی خوشگوار حوالہ یا یاداشت نہیں رکھتا۔ اب اگر آئین کے تحت صدارتی نظام لانا ہو تو شائد ایسا ممکن ہی نہ ہو کیونکہ 73 کے آئین کے تحت ملکی نظام پارلیمانی ہی ہوگا یہی آئین کی روح ہے آئین کے تحت آئین کی روح کے خلاف کوئی آئنی ترمیم یا قانون سازی نہیں کی جاسکتی یا یہ ممکن ہے کہ ملک میں آئین ساز اسمبلی کیلئے انتخابات کرائے جائیںپھر آئین ساز اسمبلی نیا آئین تشکیل دے جس کی بنیادی روح صدارتی نظام ہو تو پھر اسے رائج کیا جاسکتا ہے میرے خیال میں یہ کہنے اور لکھنے کی حد تک تو آسان بات ہے مگر ایسا عملاً کرنا شائد ممکن ہی نہیں اس کیلئے ایک ریفرنڈم کی بات بھی بہت کی جارہی ہے اس کے حوالے سے صرف یہ کہوں گا کہ اس کیلئے جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی صورتحال پیدا کرلی جائے ورنہ اس ریفرنڈم کی کوئی آئنی یا قانونی حیثیت شائد نہ ہو اب آتے ہیں سیاسی فارمولوں کی طرف تو ایک سوال ہے کہ میاں نواز شریف آرہے ہیں یا نہیں تو یہ بات سب کو یاد رکھنی چاہئے کہ میاں نواز شریف کسی یقین دہانی اور مکمل گارنٹی کے بغیر آنے کے لئے گئے ہی نہیں تھے جب تک میاں نواز شریف کو مکمل تحفظ، مقدمات کے خاتمے کا یقین نہ ہو جائے واپس نہیں آئیں گے مسلم لیگ (ن) حکومت کو پریشان کرنے اور اپنے ووٹرز کی حوصلہ افزائی کیلئے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ان کی واپسی کا معمہ چھیڑ دیتی ہے اور وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب بھی ہے۔ اپوزیشن کے جلسے جلوس اور لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو غیر مقبول کرنے کا کام تو کیا جاسکتا ہے مگر یہ تحریک اتنی بھی طاقتور نہیں کہ حکومت گھبرا کر مستعفی ہو جائے ویسے بھی جلسے جلوسوں دھرنوں اور لانگ مارچ کے ذریعے حکومتیں ختم ہونے کا رجحان کچھ تو ختم ہوچکا۔ دو آئینی آپشن بھی موجود ہیں ایک تو یہ کہ وزیراعظم خود اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان کردیں تو ایسے حالات میں جب ان کی جماعت غیر مقبولیت کی انتہا تک پہنچی ہوئی ہے وزیراعظم عمران خان انتخابات میں جانے کا رسک کیوں لیں گے؟ حکومت کو گھر بھیجنے کا اپوزیشن کے پاس واحد آئنی راستہ تحریک عدم اعتماد ہی رہ جاتا ہے اس آئینی راستے پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجوہات بھی ہیں ایک تو یہ کہ عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورتحال میں نئی حکومت سازی کون اور کس طرح کرے گا نئی حکومت میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جے یو آئی یا دیگر اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ خود حکومتی باقی ارکان کو کیا ملے گا؟ کتنی دیر میں نئے الیکشن کرائے جائیں گے؟ ان سوالوں پر اپوزیشن بکھری ہوئی نظر آتی ہے اس کے خدشات یہ بھی ہیں کہ اگر عدم اعتماد کی کوشش کی گئی تو اسٹیبلشمنٹ ارکان کو دباؤ ڈال کر حکومت کی حمایت پر مجبور نہ کرے اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر بڑے واضح انداز میں بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں پھر بھی ماضی کے تجربات کی روشنی میں اپوزیشن جماعتیں ابھی تک گومگوں کا شکار ہیں۔ تحریک انصاف کے اپنے بعض سینئر رہنما بھی حکومت کی کارکردگی سے نالاں ہیں اور امکان ہے کہ نئے سیٹ اپ میں وہ بھی شامل ہوسکتے ہیں یہ امکان بھی ہے کہ نئے سیٹ اپ میں بھی وزارت عظمی کی سیٹ انہی باغی ارکان میں سے کسی کو دے دی جائے گیند اب اپوزیشن کی کورٹ میں ہے وہ کتنی سنجیدگی اور سمجھداری کا مظاہرہ کرتی ہے عوام منتظر ہیں۔