والدہ مرحومہ کی یاد میں
جنوری ،کہنے کو تو یہ ماہ یخ بستہ اور سرد موسم ہے اور ہر دفعہ نئے سال کا پیغام لے کر آتا ہے۔مگر درحقیقت یہ ہے کہ یہ ماہ ہر بارمجھے اداس اور غمگین کر جاتا ہے ۔ ’’امی جان‘‘ کی رخلت ۔آہ ! کاش یہ سب خواب و خیال ہوتا ۔ حقیقت ایسی تلخ کہ صبر و استقامت کا جذبہ بھی ماند پڑ جائے ۔کمی ایسی کہ تسلیم کرنا مشکل ہو جائے، زندگی ویران لگے ۔ شخصیت معززو معتبر ، آنکھیں اختراماـ ً جھک جائیں، ماں جیسی ہستی کے بغیرزندگی بے رنگ اور ادھوری سی لگتی ہے ۔انہوں نے جہاں مجھے اس دنیا سے متعارف کروایا وہاں دوسری طرف عملی زندگی کو سنوارنے میں اہم کر دار بھی ادا کیا ۔انہوں نے ملتان کے زمین دار گھرانے سے تعلق رکھنے کے باجود کم تنخواہ میں گزر بسر کیا اور خودداری کا دامن کبھی نا چھوڑا۔ والدہ گرامی ، ابو جان کی وفات کے بعد، تیرہ برس تک ہمارے ساتھ رہیں۔بس ہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ والدین کو اپنے جوار رحمت میں رکھے ۔ماں ایک بہت ہی خوبصورت لفظ ہے۔زبان پر آتے ساتھ ہی پیار محبت اور ہمدردی کا احساس ہو نے لگتا ہے۔حسن سلوک کے حوالے سے علمائے اکرام نے لکھا ہے کہ والدہ کا درجہ باپ سے تین گنا ہ زیادہ ہے۔وہ اس لئے کی ماں ایسی مشقتیں برداشت کرتی ہے جوباپ نہیں کرتا۔حضرت ابو ہر یر ہ ؓ فرماتے ہیں’’ ایک شخص رسولﷺ کی خدمت میں آیا اور سوال کیا۔اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟آپﷺ نے فرمایا ’’ تمھاری ماں‘‘اس نے سوال کیا پھرکون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تمھاری ماں‘‘تیسری مرتبہ اس نے عرض کیا پھر کون تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تمھاری ماں‘‘ اسکے بعد پھر اس شخص نے سوال کیا تو آپ ﷺ نے جواب دیا: ’’تمھارا باپ‘‘۔(بخاری شریف، حدیث 5971)آپ ﷺ نے فرما یا ۔(مفہوم) کاش میر ی ماں زندہ ہوتیں اور میں عشا کی نماز پڑھنے کیلئے مصلے پر سورۃفا تح شرو ع کر چکا ہوتا ۔ اور مجھے میر ی ماں آواز دیتی۔ ’اے محمدﷺ‘‘ تو میں نماز توڑ کر جواب دیتا جی امی جان۔سبحان اللہ۔ ماں کا اسلام میں مقام ۔ عظیم ہستی کے شان کے حوالے سے ایک دوسرا واقعہ ہے۔ حضرت اویس بن عامر قرنی ؒ بڑے متقی وزاہد اور خیر التابعین تھے۔انہوں نے عہد نبوی ﷺ پایا لیکن رسول ﷺ کی زیارت نہیں کر سکے ۔ وجہ یہ تھی وہ اپنی والدہ کی خدمت کیلئے تنہا تھے۔اور کوئی دوسرا نہیں تھا۔جو انکی خدمت کرتا۔ لہٰذا وہ والدہ کی خدمت میں رہے۔آپ ﷺ نے حضرت اویس قرنی کو خیرا لتابعین سے تعارف کرایا۔امیر المومنین حضرت عمر ؓ رسول ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہیں! تابعین میں سے بہتر وہ شخص ہے جسے اویس ؒ کہا جاتا ہے ۔اسکی ماں (زندہ) ہے۔ اور اسکے جسم میں (برص کے) سفید دانے ہیں۔ (عمرؓ) تم ان سے کہو کہ وہ تمھارے لئے مغفرت کی دعا کرے۔ والدہ کی قدر و منزلت اگر دیکھنی ہو تو اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ:اللہ تعالی ٰ نے اپنے نیک بندہ سے محبت کا اظہارکرنا چاہا تو فرمایا (مفہوم) میں سترمانوں سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔ اللہ تعالی ٰ نے ماں کے قدموں میں جنت رکھ کر اسے بلند مرتبے پر فائز کر دیا ہے۔ ایسی مثال ہمیں دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ بہر کیف مطمع نظر 21 جنوری 2015ء کے دن کو یاد کرنا ہے جب اچانک دل کا دورہ پڑنے سے امی جان انتقال کر گئیں۔والد صاحب کی رحلت کے بعد والدہ نے جس طرح ہماری پرورش کے عمل کو آگئے بڑھایا ، اخلاقی تربیت کی اور ہم سب بہن بھائیوں کو حالات کا مقابلہ کرنا سیکھایا وہ کو ئی اور نہیں کر سکتا تھا۔بلاشبہ ہر کسی کے زندگی پر والدین اسکے والدین کی تربیت کے نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بڑا ہے ،خوبصورت شخصیت کا مالک ہے تو یقینا یہ اسکے والدین کی پرورش کا ثمر ہے۔آج ان کی ساتویں برسی ہے۔اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے ۔ اپنی رحمتوں کے سایے میں رکھے ۔ آمین۔