کشمیریوں کی نسل کشی پر یورپی اداروں کی تشویش
جنوری 2022ء کے پہلے پندرہ واڑے میں عالمی سطح کی دو اہم خبروں نے کشمیریوںکو چونکا دیا۔ انہیں اُمید نہیں تھی کہ مغرب میں کوئی ایسی توانا آواز بھی ان کے حق میں بلند ہو سکتی ہے۔ یہ آواز کہیں اور سے نہیں مسئلہ کشمیر پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کرنے والے ملک برطانیہ میں بلند ہوئی ہے۔ اگر تاج برطانیہ 1947ء میں تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت پنجاب کی تقسیم میں مداخلت نہ کرتی۔ نہرو اور گاندھی کو خوش کرنے کیلئے پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے بھارت کے حوالے نہ کرتی تو آج یہ مسئلہ ہی موجود نہ ہوتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ مسئلہ تقسیم پنجاب میں ڈنڈی مارنے کی بدولت پیدا ہوا۔ ورنہ بھارت کے پاس سوائے پٹھانکوٹ کے اور کوئی راستہ نہیں ہے جہاں سے وہ جموں کشمیر میں فوجی مداخلت کر سکے۔ پٹھانکوٹ کا علاقہ تقسیم کے منصوبے کے تحت پاکستان کے حصے میں آیا تھا مگر اسے بھارت کے حوالے کردیا گیا۔ بہرحال لارڈ مائونٹ بیٹن ، جواہر لعل نہرو نے مل کر ایسا غلط کام کیا جس کا خمیازہ ہندوستان اور پاکستان کو آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ایک ساتھ برطانیہ کی غلامی سے آزادی حاصل کرنیوالے دونوں پڑوسی ممالک آج تک ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔
یہ تو ماضی کی بات تھی۔1947ء سے لے کر آج تک بھارت سے علیحدگی کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام جو تحریک چلا رہے ہیں وہ دنیا کی طویل ترین خونی تحریکوں میں سے ایک تحریک ہے۔ 1989ء سے شروع مسلح تحریک آزادی میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کشمیری مادر وطن پر قربان ہو چکے ہیں۔ کشمیر میں بھارت فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے ان نوجوانوںکی تعداد اور مقابلوں کی تفصیل دنیا بھر کے اخبارات اور رسائل کے علاوہ میڈیا کی زینت بن چکے ہیں، مگر اس پر وہ ایکشن اور عالمی ردعمل سامنے نہیں آیا جو آنا چاہیے تھا۔ اگر فوری اور سخت ردعمل سامنے آیا ہوتا تو بھارت میں عالمی برادری کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں ہوتی بس دبے لفظوں میں احتجاج ہوتا رہا۔ یوں بھارت کے حوصلے بڑھتے گئے اس نے مقبوضہ جموں کشمیر میں 9 لاکھ فوجی تعینات کر کے انہیں کشمیریوں کی نسل کشی کی کھلی چھوٹ دے دی۔ یوں وادی کشمیر کے چپے چپے میں ہزاروں گمنام قبرستانوں میں ، شہروں اور دیہات میں قائم مزار شہدا میں ہزاروں کی تعداد میں وجود آنیوالی یہ نئی قبریں عالمی برادری کی بے حسی اور خاموشی پر نوحہ خواں رہیں۔ دو سال قبل کشمیر کی خصوصی اور آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد تو بھارت نے زیادہ کھل کر کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ ہر روز 3 یا 4 کشمیریوں کو مارنا اب بھارتی فوجیوں کا معمول بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ 3 برسوں میں دو مرتبہ اس مسئلہ پر اجلاس بلایا مگر افسوس وہ بھی بے سود رہا اور یہ دیرینہ مسئلہ یونہی حل طلب ہے۔ اب لندن میں ایک برطانوی لاء فرم نے بھارت کے آرمی چیف جنرل منوج مکنڈ اور بھارتی وزیر داخلہ امیت شا کیخلاف لندن میٹرو پولیٹن پولیس کرائم یونٹ کو ایک درخواست دی ہے جس میں انہیں مقبوضہ جموں کشمیر میں کشمیریوں کے وحشیانہ قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان دونوں کی گرفتاری کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ ان دونوں پر کشمیر میں جنگی جرائم اور مظالم کا مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کیا جائے۔ یہ معاملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا تسلیم کرتی ہے کہ بھارتی حکومت اور فوج کشمیریوں کی نسل کشی اور انکے اغوا اور قتل میں ملوث ہے۔ لاء فرم نے بڑی تعداد میں ثبوتوں کے ساتھ یہ درخواست جمع کرائی ہے۔
اسکے ساتھ ہی ایک اور بڑی خبر یہ بھی ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم جنیوا سائیڈ واچ کے بانی ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو افریقی ملک روانڈا کے مشابہ قرار دیا ہے جہاں بدترین نسل کشی ہو رہی ہے۔ ڈاکٹر گریگوری نے بھی کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی کا ذمہ دار بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کو قرار دیا ہے۔ ان دو خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کی صورتحال 2019ء میں بھارت کی طرف سے اس کو زبردستی ضم کرنے کے بعد مزید خراب ہوئی ہے اور وہاں اب کشمیریوں کی نسل کشی کا خطرہ زیادہ بڑھ گیا ہے مگر عالمی سطح پر اس حوالے سے کوئی ہلچل مچی نظرنہیں آئی۔ روانڈا میں نسل کشی پر پوری دنیا میں ایک اضطراب پایا جاتا ہے جبکہ کشمیر کے مسئلہ پر بے حسی سامنے آ رہی ہے۔ اب شاید ان رپورٹوں کے بعد عالمی برادری جاگ اٹھے ، نہیں تو اسلامی ممالک ہی کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی پر اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے آواز بلند کریں۔ جس کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر بھارت بہت جلد مقبوضہ کشمیر کی مسلم شناخت مٹا دے گا اور وہاں صدیوں سے اکثریت میں رہنے والے کشمیری مسلمان اقلیت میں بدل جائیں گے۔
پاکستان اپنی طرف سے کوشش کرتا رہا مگر عالمی برادری اور مسلم اقوام نے اس کی کسی فریاد ، التجا یا درخواست کو قابل قبول نہیں سمجھا اور بھارت کے خلاف چند ایک ممالک نے زبانی کلامی افسوس کے اظہار کے سوائے اسے ایک لفظ تک نہیں۔ کیا اسلامی اُمہ کشمیریوں کو اپنا کا حصہ تسلیم نہیں کرتی۔