نعرے بازیاں اور عملی کام

ہم اکثر کہانیوں میں پڑھتے ہیں کہ بادشاہ نے سارے ملک میں منادی کروا دی یا اعلان کرنے والے نے ڈھول پیٹ پیٹ کر بادشاہ کے حکم یا انعام کا اعلان کیا۔ جدید دور تبدیلیوں کا دور ہے۔ بادشاہ کے ہاں انعامات کی غلط روایت ایسے عائد ہوئی کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ ساری کابینہ اعلانات پر مامور ہے جونہی کسی کا گلا خراب یا آواز مدھم پڑتی ہے , کابینہ میں توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے ڈر ہے ہر شخص پر ایک وزیر نہ مقرر کر دیا جائے تا کہ عوام کی بد حالی میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ بادشاہ کے نعروں میں سب مسائل دب کر ناسور بن چکے ہیں اور اب قطرہ قطرہ رسنے لگے ہیں۔ پورے پورے خاندان ان سرد راتوں میں سڑک کنارے ہاتھ پھیلائے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ خدا جانے ان کو پناہ گاہوں میں کیوں جمع نہیں کروایا گیا. مسئلہ یہ بھی ہے کہ جسے جہاں ہونا چاہیے وہ وہاں موجود نہیں۔ ہر سانحے کے پس پردہ محرکات کو نظر انداز کر کے دس پندرہ خصوصی میٹنگز کا نذرانہ جمع کرنے کے بعد کمیٹی جو سفارشات مرتب کرتی ہے وہ صرف تبدیلی و تبادلہ ہے۔ دکھ تو یہ ہے کہ یہ سب فنکاری دکھانے والے ہیں , فن کار نہیں۔ وزیراعظم نے اسلام آباد میں جدید رائٹرز گلڈ کی بنیاد رکھنے کیلئے جو شو کیا اسکے اثرات اتنے ناکارہ رہے کہ ادبی بیٹھک بھی بند کر دی گئی۔ کئی ماہ سے ادیب و شعراء دہائی دے رہے ہیں کہ ادبی بیٹھک کو ادبی سرگرمیوں کیلئے کھولا جائے لیکن حکام کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگی. سوچ و فکر کو پراگندہ کرنے میں مشیران ارباب اختیار کے مددگار ہیں۔ نئے اعلانات کے مطابق سکولز کو مدرسہ گاہ بنانے والے کیوں یہ چاہیں گے کہ مذہب و ادب فرد واحد کا ذاتی معاملہ رہے۔ ریاست کو یہ کیوں سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے مسائل کے حل ذہنی تربیت کے محتاج ہیں۔ سمجھ لینا چاہیے کہ اداروں میں تربیت کی جاتی ہے۔ سکولز و کالج میں علمی درسگاہ کے طور پر اصطلاحات نافذ کی جائیں تو حقیقی بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمیں عملی طور پر قوم کے اخلاق بہتر بنانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہ اخلاقی معیار جن کی بنا پر یورپی اقوام نے ترقی کی۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ کالجز میں صبح و شام کی بنیاد پر ڈینگی کی رپورٹس مع تصاویر طلب کی جاتی ہیں اور کالج کی دیوار کے باہر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ آج 20 دن کے بعد اور اس سے پہلے کئی سال کی کوششوں اور درخواستوں کے باوجود کسی کی توجہ گلبرگ کالج کی طرف نہیں پڑی۔ شاید صفائی کا یہ چلن حکومتی فائلوں میں نہیں لکھا گیا۔ شہر کے وسط اور پوش علاقے میں جہاں چار اور مہنگے ترین سکول اور یونیورسٹی موجود ہے وہاں سرکاری کالج کو ہی کوڑا گھر بنانے کیلئے کیوں منتخب کیا گیا اور واسا نے سارے گٹروں کے ملبہ اسی سڑک پر کس لیے لاد دیا۔ بیرونی سڑک پر خوب پھولوں کی دکانیں , اطراف میں کھانے پینے کے بے شمار مراکز، ایک طرف پارک جس میں نرسری اس انداز سے بنائی گئی ہے کہ بڑی مشکل سے نظر آتی ہے. اسکے گلبرگ کالج کی وسیع عمارت جس میں کئی سالوں سے نہ تو اساتذہ کی کمی پوری کی گئی اور نہ ملازمین کے کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز سے آخر کب تک کام چلایا جا سکتا ہے۔ اور پھر دیوار کے ساتھ آدھ میل کے دائرے میں کھلے گٹروں کا پانی اور کوڑا کرکٹ کا ڈھیر۔ شاید ڈینگی حکومتی کوتاہیوں پر نہیں بیٹھتا۔ ایسی درخواستیں شہباز شریف کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ کیونکہ شہباز شریف کے دور میں اس پہ فوری عمل درآمد ہو چکا ہوتا۔ لاہور کی خوب صورتی میں جس ویژن سے شہباز شریف نے کام کروایا ، اس کا عشر عشیر بھی موجودہ دور میں ممکن نہیں ہو سکا۔ لاہور کی سڑکیں جن کی خوب صورتی کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں اور وہ انڈر پاس جن کی وجہ سے ٹریفک کا اژدحام کسی حد تک کنٹرول میں ہے۔ شہباز شریف کی بدولت ہی ممکن ہو سکا۔ کالجز میں لیپ ٹاپ اور انرجی سیور پینل کتنی آسانی اور دریا دلی سے تقسیم کیے گئے۔ اب سب خواب و خیال کی باتیں لگتی ہیں۔ شیر کا لیبل لگانا فہم و فراست کے بنا ممکن نہیں اور اس کا تاثر زائل کرنے اتنا بھی آسان نہیں۔ کسی کی خواہش پر شیخ چلی کہانی سے نکل کر منصوبہ بندی میں مشغول ہے۔ اور نادیدہ کامیابیوں اور صلاحیتوں کے بارے میں بے حد فخر اور خود مطمئن گفتگو کی نمائش جاری ہے۔ شاعر جس مبالغہ آرائی کو ادبی حسن سمجھتا ہے۔ سیاست میں اس سے آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کام لیا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک وعدہ وزیر تعلیم نے بھی کیا تھا جو وقت کی دھول میں ہوا ہو گیا۔ ہم یہاں بچوں کو ایفائے عہد کا درس دیتے ہیں لیکن سیاسی وعدے محبوب کے وعدوں کی طرح ایفا نہیں ہوتے اور انھیں مسائل کے حل سے سروکار ہی نہیں ہوتا۔ سسٹم کی صفائی کیلئے قابل اذہان کی پریشان خیالی کو سسٹم بچاو تحریک کا نام دیا جا رہا ہے۔ وہ درمیانی راستہ جو انھوں نے نکالنا تھا نارووال یونیورسٹی کی طرح مصلحت کے اعلانات میں دب گیا ہے۔ کیا کریں بادشاہ کے اپنے نعرے ہیں اور منادی۔ کرنے والوں کی اپنی بے بسی ۔سو اب جب بھی کوئی منادی ہوتی ہے کتنے ہی لوگوں کے آنسو نکل آتے ہیں۔ انکی بے بسی دفن ہوتی جا رہی ہے اور کرامات کی ٹولیاں مطمئن و فرحاں اپنی ثنا میں مشغول ہیں ۔