عوام کے کان کھولیں!
ہمارے بڑے بھی بہت کمال کرتے ہیں ، وہ دھوپ میں جہاں ایک گھنی چھاؤں ہیں تو سردی میں ہمیں اپنے احساس سے گرم بھی رکھتے ہیں۔ ان کا تو جیسے فرض ہے کہ انہوں نے ہمیں ہر آنیوالے حالات سے محفوظ کرنا ہو۔ ہمارے یہاں باپ کی عمر چاہے سو سال کیوں نا ہو جائے وہ اپنے فرائض سے کبھی ریٹائر نہیں ہوتا اور اس چیز کو بہت بڑی بات سمجھا جاتا ہے۔ہمارے بڑے کبھی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ انکے بچے بھی اب بڑے ہو گئے ہیں اور وہ خود سے حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں یا انہیں موقع دینا چاہیے کہ وہ حالات کی تھوڑی بہت مار کھائیں اور خود کو فولادی ڈھال بنائیں ۔ اسکے برعکس ہمارے یہاں بچے چاہے کتنے بھی بڑے ہو جائیں انہیں بچا ہی سمجھا جاتا ہے اور ہر بات ہر امر میں بے تحاشہ فلٹر لگا دئیے جاتے ہیں کہ بس اُن کیلئے اتنا ہی جاننا کافی ہے اس سے زیادہ جان کر یا تو وہ پریشان ہونگے یا وہ جذباتی بن کر کچھ غلطی کر بیٹھیں گے۔ایسا ہی کچھ ہماری حکومت بھی ہمارے ساتھ کرتی ہے جن کے خیال میں عوام چھوٹے بچوں کی مانند ہے اور انہیں زیادہ جاننے کا ضرورت نہیں ہے، بس حکومت کو اس کا کام کرنے دیا جائے اور عوام چِل مارے، مگر گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ ایسا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جہاں کچھ اندرونی مسائل ہیں وہیں کچھ بیرونی چیلنجز کا سامنا بھی ہے اور یہاں دونوں کے ساتھ نپٹنے میں وقت لگے گا اور یہ آہستہ آہستہ کم ہوں گے مگر یہ جب تک ہیں ، تب تک یہ ہلکے پھلکے جھٹکے لگاتے رہیں گے۔ہم عوام یہ تو ضرور چاہتے ہیں کہ ہم امریکہ کے چُنگل سے آزاد ہوں مگر اس کی قیمت کیا ادا کرنی ہو گی یہ ہم میں کوئی نہیں جانتا؟ ہم یہ تو جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف ایک بہت زیادہ سخت قسم کا جال ہے مگر اس جال سے کیسے خود کو بچانا ہے اور کیسے اس کشکول کو توڑنا ہے وہ ایک بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔حتیٰ کے ہم دنیا کی عظیم قوم تو بننا چاہتے ہیں مگر اسکی راہ میں دو تین مشکلات حائل ہے ہیں۔ سب سے پہلے ہم زیادہ کاہل اور آرام پسند لوگ ہیں، ہمیں اپنا کام کرنے کی عادت نہیں اورباقیوں کا کیا ہوا کام ہمیں پسند نہیں، دوسرا ہم عیاش پسند لوگ ہیں ہم اپنی عیاشیوں کی قربانی نہیں دے سکتے ، ہم نا تو گھاس پھونس کھا سکتے ہیں او نا ہی ہم کوئی اور ایسا سخت کام کر سکتے ہیں کہ ہماری حکومت ہمارے بل پر کوئی سخت اقدام لے سکے۔ تیسرا وہی ہماری حکومت نے ہمیں چھوٹے کاکوں کی طرح گود لیا ہوا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کو بس آرام سے کھانا پینا دو، عیاشی کا سامان مہیا کرنے کی کوشش کرو مگر انہیں آنے والے حالات کے بارے میں کچھ نا بتاؤ کہ یہ اپنا کچھ ذہن ہی بنا لیں۔ہمارے یہاں اگر آپ کو پندرہ دن بعد کہیں سے کچھ پیسے ملنے کی صرف بات ہی ہو تو ہم آج کے دن میں اتنا قرض اٹھا کر موج میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں نا تو بچت کی عادت ہے اور نا ہی ہمیں زندگی کو ترتیب دینا آیا ہے۔ ہمیں ہماری حکومت اب بھی اس بات کے بارے میں آگاہ نہیں کر رہی کہ جناب اگر ہم اگلے آئی ایم ایف پروگرام کی طرف جاتے ہیں تو اسکے بعد ملک میں کیا کیا ممکنہ بحران آ سکتے ہیں ۔ کن کن سیکٹرز پر مزید ٹیکس لگ سکتے ہیں اور ہم یہ اتنے اربوں ڈالر اور لینے کے خواہاں ہیں یہ ہم کن شرائط پر واپس کرینگے؟ ہم امریکہ سے نفرت کرتے ہیں ، ہمیں انکی غلامی قبول نہیں ، ہمیں بس انکے مدِ مقابل آنا ہے تو بھائی کیسے؟ اس کیلئے کیا قیمت چکانی ہو گی؟ امریکہ کہاں کہاں سے ہمارا نرخرہ بند کریگا اور کن فورمز پر وہ ہمارے لئے روڑے اٹکا کر مزید مشکلات پیدا کریگا؟ ہمیں ان سب باتوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ اب عوام کو واضح طور پر صحیح حالات سے آگاہ کریں۔ ہم چین کے بعد اب روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرر ہے ہیں جو بلا شبہ خطے میں امن و سکون کیلئے بہت اہم سنگِ میل ثابت ہونگے مگر فی الحال ہمیں انکی کیا قیمت چکانی پڑیگی ، یہ بھی ایک عام آدمی کو پتہ ہونا چاہیے ، تیل کے ممکنہ بحران اور اس کی قیمتوں میں اضافہ کے بارے میں بھی ہمیں اپنی عوام کو آگاہ کرنا ہو گا۔اسکے باعث آنیوالے ممکنہ مہنگائی کے طوفان کے بارے میں ابھی سے لوگوں کو کچھ بتائیں اور ان حالات کا کیسے مقابلہ کرنا ہے اس بارے میں عام لوگوں کو سمجھانا ہو گا۔ ’’حکومت ہو گی ماں کے جیسی‘‘جو چڑیا کی طرح اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے اور ہر طرح کی مصیبت سے دور رکھتی ہے مگر اب ان بچوں کو آنیوالے حالات کے بارے میں جنگی بنیادوں پر تیار کرنا ہو گا۔انکی دوبارہ سے تربیت کرنی ہو گی انہیں جذباتیت سے چھٹکارہ دلانا ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ اب وہ عوام کو سب کچھ صاف صاف بتائے اور ایسا کرنے کو کوئی کمزوری نا سمجھا جائے نا ہی ایسے کرنے میں کچھ برائی ہے ، بس ایسا کرنے سے اتنا ہو گا کہ خاندان کے مزید کچھ لوگوں کو حالات کا ادراک ہو جائیگا اور وہ سخت محنت کرنے لگیں گے اور اللہ کے فضل و کرم سے جلد ہم ان مشکل حالات سے نکل جائیں گے۔