"سکھ فار جسٹس" کی کامیابی!!!!!(آخری قسط)
انہوں نے اعتراف کیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ آیا پاکستان سکھ فار جسٹس کی ریفرنڈم مہم میں کسی بھی طرح سے ملوث ہے۔ یہ بھی کہا گیا ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس مہم یا تنظیم کو پاکستان کی مالی مدد، معاونت یا سرپرستی حاصل ہے۔ ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں بھارت ہر دوسرے معاملے میں پاکستان کو متنازع بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور انسان دشمن پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے بجائے ساری توجہ پاکستان پر الزام دھرنے اور جھوٹے الزامات کو دنیا میں پھیلانے پر خرچ کرتا ہے۔
اس اعتراف مین مزید یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اور ایس ایف جے کے درمیان کسی تنظیمی مدد کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کینیڈین مصنف نے اعتراف کیا کہ وہ نہیں جانتے کہ سکھ فار جسٹس کی خالصتان ریفرنڈم مہم میں پاکستان ملوث ہے یا پھر یہ تنظیم یا اس کے عہدیداران پاکستان کے زیر اثر ہیں۔
الزام لگایا گیا تھا کہ امریکی وکیل گروپتون سنگھ پنن جو ایس ایف جے کی قیادت کرتے ہیں وہ پاکستان کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ عدالتی جرح میں میلوسکی نے قبول کیا کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور سکھ فار جسٹس کے مشترکہ مفادات ہندوستان کی مخالفت میں ہو سکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں یا ایک دوسرے پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ یہ بھی الزام لگایا کہ سکھ فار جسٹس مہم چلانے والے پاکستانی ہیں خالصتانی نہیں۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ پاکستان کے لوگ آزادی سے رہنے والے سکھوں کی تاریخ مسخ کرنا اور سکھوں کی اکثریت کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ الزامات میں یہ بھی تھا کہ سکھ فار جسٹس سکھ برادری کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بولتے ہیں اور یہ کہ پاکستان اس تنظیم کا "سرپرست" ہے اور اس کے اغراض و مقاصد کا تعین پاکستان ہی کرتا ہے۔
لندن میں خالصتان ریفرنڈم کے پہلے دن یعنی گذشتہ برس اکتیس اکتوبر کو لندن کے آس پاس سے تیس ہزار سے زائد سکھوں نے ووٹ ڈالے، خالصتان کی حمایت کی، یہ ووٹ براہ راست نریندرا مودی حکومت اور بھارت کی ہر دور میں خالصتان تحریک کو دبانے واپی حکومتوں کے خلاف فیصلہ تھا۔ گذشتہ برس بھی سکھوں نے بڑی تعداد میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو دیگر مسائل کو ایک طرف رکھنے اور خالصتان ریفرنڈم پر توجہ دلانے کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے۔ سکھ دنیا کے تمام اہم ممالک میں اس حوالے سے مسلسل کام کر رہے ہیں۔سکھوں کو متواتر بھارتی حکومتوں کے ہاتھوں منظم ظلم و ستم اور مسلسل استحصال کا سامنا ہے۔ سکھ فار جسٹس تحریک خود ہندوستان کے سیکولر چہرے پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
پوری دنیا میں سکھوں کی طرف سے مکمل حمایت یافتہ تنظیم کا تازہ ترین اقدام بھارت میں اقلیتوں کی انتہائی متعصب اور سفاک ہندوتوا حکومت کی گرفت سے نکلنے کے لیے مایوسی کی واضح علامت ہے۔
اس تنظیم کے متحرک ہونے اور اب ریفرنڈم کی سطح تک آنے ہے بعد یہ ثابت ہو چکا ہے کہ سکھ کبھی نہیں بھولیں گے کہ ہندوستان نے ان کی شناخت اور تاریخ کو ختم کرنے کے لیے جو کچھ کیا ہے۔ سکھوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ بلکہ وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی بھلائی صرف اسی صورت ممکن ہے جب وہ خالصتان نامی ایک آزاد وطن میں رہتے ہیں۔
بھارت نے طویل عرصے سے یہ پروپیگنڈا کیا تھا کہ خالصتان تحریک کے پیچھے صرف چند درجن سکھ ہیں لیکن بھارت اور بیرون ملک ہزاروں لوگوں کی شرکت نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ خالصتان تحریک کو دنیا بھر کے سکھوں کی حمایت حاصل ہے۔
سکھوں کے مطالبات یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان کی اقلیتیں اب واضح طور پر سمجھتی ہیں کہ ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل سنگین خطرے میں ہے۔ عالمی برادری اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز/تنظیموں کو بالعموم مسلمانوں اور اقلیتوں اور بالخصوص کشمیریوں کے لیے بڑھتی ہوئی انسانی تباہی کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں۔
علیحدگی پسند ریفرنڈم مہم چلانے کی وجہ سے بھارت نے سکھ گار جسٹس پر 2019ء سے پابندی عائد کر رکھی ہے، تاہم، یہ گروپ مغربی جمہوریتوں میں بلا روک ٹوک کام جاری رکھے ہوئے ہے جہاں پرامن ذرائع جیسے کہ رائے شماری کے انعقاد، اختلافی سیاسی رائے کو سیاسی اور بنیادی حق سمجھا جاتا ہے وہاں اس تنظیم کے کام کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ انگلینڈ بھارتی حکومت کی درخواستوں کے باوجود، خالصتان ریفرنڈم کی سرگرمیوں کی اجازت دے رہا ہے جس میں 31 اکتوبر کو حکومت کے زیر انتظام کانفرنس سینٹر میں خالصتان پر ووٹنگ شامل ہے۔ اس وقت کے کینیڈین وزیر اعظم نے ریکارڈ پر کہا کہ خالصتان ایک سیاسی رائے ہے جس سے شاید بہت سے لوگ متفق نہ ہوں لیکن کینیڈین سکھوں کو پرامن طریقے سے خالصتان کی وکالت کرنے کا حق ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان کہ آزادی رائے امریکی آئین اور جمہوریت کے اصول کی بنیاد ہے، ایک ہندوستانی صحافی کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ امریکہ ایس ایف جے اور اس کے خالصتان ریفرنڈم کی سرگرمیوں کی اجازت کیوں دے رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس حوالے سے ملکی میڈیا میں کوریج مثالی نہیں تھی حالانکہ بیرون ملک بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔ بھارت پاکستان کی خفیہ ایجنسی، افواج پاکستان کے خلاف کام کر رہا ہے لیکن اسے ہر جگہ شرمندگی کا سامنا ہے۔ ان حالات میں ہمیں ایسے فیصلوں اور رپورٹس کو دنیا تک پہنچانے کے لیے اپنے وسائل کو بہتر امداز میں استعمال کرنا چاہیے تاکہ بھارتی جھوٹ بے نقاب ہو اور سچ لوگوں تک پہنچے۔ (ختم شد)