یونیورسٹی آف دی ڈائیننگ ٹیبل ( 1)

ہمارے دوست ڈاکٹر شہر یار احمدہارٹ سپیشلسٹ ہیںوہ ماہر معالج تو ہیں ہی بہت اچھے انسان بھی ہیں۔ کبھی کبھار ملاقات ہوجائے تو بڑی پتے کی باتیں کرتے ہیں۔ ایک روز کہنے لگے ۔ ہماری والدہ روایتی معنوں میں تعلیمیافتہ نہیں تھیں ۔ اس کے باوجود اللہ تعالی نے اْنھیں بڑی بصیرت سے نوازا تھا۔ ان کا مزاج ذرا سخت تھا اور ان کے زیر سایہ ہمارے گھر کا انتظام و انصرام نہایت عمدہ تھا۔ وہ چوکے میں چولہے پر کھانا تیار کرتیں اور ہم سب بہن بھائی کھانا کھانے کے لیے ان کے ارد گرد پیڑھیوںیا چوکیوں پر بیٹھ جاتے۔ وہ تو ے پر روٹیاں پکاتی جاتیں اور ساتھ ساتھ علم و حکمت سے بھرپور گفتگو بھی کیے جاتیں’’ سردیاں شروع ہورہی ہیں ۔ ان دنوں احتیاط کرنی چاہیے ۔ آتی اور جاتی سردی خطرناک ہوتی ہے۔ بندہ احتیاط نہ کرے تو بیمار ہوسکتاہے…تمہارے والد رات دیر تک چوپال میں بیٹھ کر فضول گپوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ وقت پر سوتے ہیں نہ وقت پر اٹھتے ہیں۔ جو شخص صبح وقت پر اٹھ کر نماز نہیں پڑھتا ، تلاوت نہیں کرتا اس کی روزی میں برکت نہیں ہوتی‘‘ ۔ وہ ایسی بے شمار باتیں کرتیں۔ ہم کھانا کھاتے جاتے اور ان کییہ باتیں سنتے جاتے۔ کبھی ہم کوئی بات کرتے ، کوئی سوال پوچھتے ، کوئی واقعہ سناتے تو وہ غور سے سنتیں۔ سوالوں کے جواب دیتیں، نصیحتیں کرتیں ، کبھی میں کہتا ’’بی بی میں جب سکول سے آتاہوں تو ادھر قبرستان کے پاس کچھ لڑکے بیٹھے ہوتے ہیں وہ مجھ پر آوازے کستے ہیں۔ کبھی للکارتے ہیں کبھی مذاق اڑاتے ہیں۔’’کوئی بات نہیں‘‘ وہ تحمل سے کہتیں ۔ ’’تم خاموشی سے گھر آجایا کرو۔ان کی طرف نہ دیکھا کرو اور نہ ان کی کسی بات کا جواب دیا کرو۔‘‘بی بی چاچا بدردین کہہ رہے تھے کہ میرا اور ان کے بیٹے کا پانچویں جماعت کا جو سنٹر کا امتحان ہونے والا ہے اس میں جن ماسٹر صاحب کی ڈیوٹی لگی ہے نا ، وہ ان کے واقف ہیں۔ وہ ان سے ہماری سفارش کریں گے اور وہ مجھے اور ان کے بیٹے انور کو نقل کروا دیا کریں گے۔‘‘ بڑے بھائی نے ایک شام خوشخبری سنائی ۔ ’’نہ نہ بیٹا‘‘ بی بی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ نقل کرنا بہت بْری بات ہے ۔ بہت ہی بْری بات ہے ۔اللہ ناراض ہوگا تم کبھی نقل نہ کرنا۔ یاد رکھنا اگر تم نے نقل کی تو ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے ۔دنیا میں کبھی نقل چور ، بے ایمان لوگ کامیاب نہیں ہواکرتے ۔ کامیاب وہی ہوا کرتے ہیںجو محنت کرتے ہیں اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ روزانہ کھانے کے وقت ان کی ایسی سینکڑوں باتیںسننا سالوں ہمارا معمول رہا۔ جب کبھی والد صاحب بھی ہمارے ساتھ کھانا کھاتے ۔ بی بی کی ان سے بحث رہتی ۔ وہ انھیں ہمیشہ محنت کرنے ، سچائی ایمانداری اپنانے ، وعدے پورے کرنے، لڑائی جھگڑے سے بچنے کا مشورہ دیتیں اور وہ آگے سے ان کا مذاق اڑاتے یا سنی ان سنی کردیتے۔ پھر جب وہ کسی مشکل کا شکار ہوتے تو ہمیں کہتیں’’دیکھا میں نے کتنا منع کیا تھا مگر یہ اللہ کا بندہ میری تو ایک نہیں سنتا ۔‘‘ ایک دفعہ بلدیاتی الیکشن ہوئے چاچے جلال دین نے کونسلر کا الیکشن لڑا تو ہمارے والد صاحب نے بہت سپورٹ کیا ۔ ایک دو جگہ تو کسی سے جھگڑا بھی ہوگیا ۔ بی بی اْنھیں ہمیشہ منع کیا کرتیں ۔’’دیکھیںیہ نہ کریں۔ ان باتوں میں سوائے خرابی کے کچھ نہیں رکھا ۔ بی بی التجائیہ انداز میںکہتیں ۔‘‘ والد صاحب کہتے ’’جلال دین کونسلر بن کے سارے گاؤں کو ترقی دے گا ۔‘‘ ، ’’خاک ترقی دے گا۔‘‘ بی بی نے جل کر جواب دیا۔ ’’ وہ اپنے باپ کی زمین بیچ کر کھا گیا ۔ بیوی روٹھ کر میکے جابیٹھی۔ لڑکے تعلیم ادھوری چھوڑ کر آوارہ پھرتے ہیں ۔ جو شخص اپنے گھر بار کی دیکھ بھال نہ کرسکا وہ گاؤں کے لیے کیا کرے گا ۔ اپنی دکان پر سب دونمبر مال بیچتا ہے ۔’’ سچائی و ایمانداری نہ ہو تو انسان انسان نہیں بنتا لیڈ ر بننا تو دْور کی بات ہے۔‘‘ بی بی نے پْر جوش تقریر کر ڈالی ۔غرض ہمارا سارا بچپن اور لڑکپن اسی معمول کے مطابق گزرا۔ آج جب میں غور کرتاہوں تو مجھے احساس ہوتاہے کہ ہم بہن بھائیوں کی زندگیوں پر اس Family gatheringیعنی ہر روز شام کے کھانے پر مل بیٹھنے اور والدہ کی صحبت اور گفتگو (Post Meal Conversation) نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہی نہیں بڑے وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ ہم بہن بھائیوں کی تربیت میں سب سے بڑا کردار اِن شام کے کھانے پر ہونے والی گفتگوؤں کا ہے ۔ ہم نے تعلیم تو سکولوں ،کالجوں میں حاصل کی لیکن ہماری اصل تربیت یہیں سے ہوئی اور اب ہم نے اپنے گھروں میں اس کا اہتمام کررکھا ہے۔ شام چھ بجے ہم سارا خاندان ڈائننگ ٹیبل پر جمع ہوجاتے ہیں۔ اپنے بزرگوں کی روایات کے مطابق سارا خاندان مل کر رات کا کھانا نماز عشائ سے ڈیڑھ دوگھنٹے پہلے کھاتاہے ۔ کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد خوب گپ شپ ہوتی ہے۔ ہر کوئی سارے دن کے واقعات وتجربات شیئر کرتاہے۔ شکایات سنی جاتی ہیں۔ مطالبات پیش اور پورے کئے جاتے ہیں ۔ پند و نصائح کا سلسلہ بھی غیر محسوس طریقے سے جاری رہتاہے ۔ بڑے چھوٹوں سے بندھی توقعات کا اور چھوٹے اپنے مسائل ، خیالات و جذبات اور پسند و ناپسند کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ہمارا ڈائیننگ ٹیبل دراصل ہمارییونیورسٹی ہے ۔ یوں ہم اپنے بچوں کو صفائی ، سچائی ، محنت کی عادت ، اعلیٰ تعلیم کے حصول ، نماز و تلاوت کی پابندی، قانون کے احترام، بڑوں کی عزت ،چھوٹوں سے شفقت ، اخبار و کتب کے مطالعے، ڈیلی ایکسرسائز کرنے، صلہ رحمی، آئے ہمسائے کا خیال رکھنے ، صدقہ و خیرات کو معمول بنانے جیسیاعلیٰ اوصاف کو اپنی شخصیت کا حصّہ بنانے کی تعلیم و تربیت اِسی’’یونیورسٹی آف دی ڈائیننگ ٹیبل‘‘ سے دلوارہے ہیں ۔ہمار ا یہ تجربہ بے حد کامیاب جارہاہے۔ ہمارے سارے بچوں کی تعلیم و تربیت بغیر کسی غیر معمولی تگ و دو کے نہایت اچھے انداز سے ہوئے چلی جارہی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس یونیورسٹی میں نہ داخلہ لینا مشکل ہے اور نہ ہی اس کی کوئی فیس ہے۔ ( جاری ہے)