’’جب زندگی کا سورج ڈھل چکا ‘‘
یوں تو زندگی ایک کتاب کی مانند ہے انسان روز اسکا ایک نیا صفحہ پلٹتا ہے اور ایک نیا سبق پڑھنے کو ملتا ہے گویا زندگی روز ایک نیا سبق دیتی ہے یہ سلسلہ موت پر ہی ختم ہوتا ہے میں جب زندگی پر غور کرتا ہوں تو ہندوستان کے عظیم مسلمان بادشاہ شیر شاہ سوری (جو فلاحی ریاست کا مکمل تصور رکھتا تھا) اسکا وہ قول سامنے آ جاتا ہے کہ افسوس مجھے حکومت اس وقت ملی ہے جب میری زندگی کا سورج ڈھل چکا ہے''، یہ ایک ایسے بادشاہ کا قول ہے جس نے نہ جانے کتنے بڑے بڑے منصوبے ذہن میں بنا رکھے تھے جن کی تکمیل کے لیئے اسے وقت کی ضرورت تھی،اس نے مختصر سے وقت میں بھی جو فلاحی کارنامے سرانجام دئیے اسکے بعد آنے والوں میں سے کوئی طویل ترین حکمرانی کرنے والا حکمران انکا عشرعشیربھی انجام نہیں دے سکااگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پورا مغل دور اور اسکے بعد انگریزدوربھی اس کے کارناموں کے سامنے بھانجھ نظر آتا ہے۔ اگر اس دانشمند بادشاہ کے قول میں تھوڑی سی ترمیم کرکے یوں کہیں توغلط نہ ہوگا کہ انسان کو جب زندگی کی سمجھ آتی ہے تو اسکی زندگی کا سورج ڈھل چکا ہوتا ہے،جب عمر ڈھلتی ہے تو سمجھ آنی شروع ہوتی ہے کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے اورزندگی کسطرح ہمارے اندازوں اور تصورات کے مطابق اورکبھی مخالف مختلف موڑ مڑتی چلی جاتی ہے بلکل بہتی ندی کی طرح کبھی شوریدہ اور کبھی پرسکون نہ اسکا تلاطم ہمارے کنٹرول میں ہوتا ہے اور نہ اسکا دھارا، بے شمارلوگوں کو زندگی کے اتار چڑھاوء کااحساس ہوتا ہی نہیں کیونکہ وہ زندگی بغیر کسی مقصد یکساں طریقے سے صبح کرتے ہیں شام کر تے ہیں اور زندگی تمام کرتے ہیں، لہزا انھیں مرتے دم تک زندگی کی حقیقت، افادیت اور بوقلمونیوں سے غرض نہیں ہوتی، ساری زندگی یا تو جانوروں کی طرح چرنے چگنے میں گزار دیتے ہیں یا چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی طرح مشکل وقت کی پیش بندی کے لیئے جمع کرنے میں کہ انکے نزدیک یہی زندگی ہے۔کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی کے خوبصورت لمحات کو دشمنیوں اور انتقام کی آگ میں جلنے میں گزاردیتے ہیں تو کچھ رشتے اور دوستیاں نبھانے اور دوسروں کو ناجائز فائدہ پہنچانے میں اپنی عاقبت برباد کر تے چلے جاتے ہیں یوں زندگی کا بہترین حصہ خدائی فوجداربن کر جھوٹے پندار اور انا کی تسکین میں گزار دیتے ہیں، کچھ حرماں نصیب تو لاحاصل کی تلاش میں مارے مارے پھرنے میں زندگی گزار دیتے ہیں، کچھ شکووئں شکائیتوں اوردوسروں کی ستائش یا تنقیص کو ہی زندگی سمجھ کر گزار دیتے ہیں لیکن کچھ عظیم اور نیک طینت ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی اوردائرہ کار میں انسانوں کے لیئے خیر اور آسانیوں کا با عث ہوتے ہیں اسی طرح کچھ اعلی صلاحیتوں اورصفات کے حامل ہوتے ہیں جو انسانوں کے لیئے مستقل بنیادوں پر آسا نیاں فراہم کرنے کی جدوجہد میں زندگیاں گزارتے ہیں ان میں سائنسدان، سوشل ریفارمرز، فلاسفر اور دیگر انسانی فلاح سے متعلق علوم کے ماہرین اور ادارے بنانے والے شامل ہیں، ایسے بے غرض اور نیک طینت لوگ اگر کسی معاشرے میں زیادہ تعداد میں ہوں تو وہ معاشرہ پرامن، خوشحال اور ترقی یافتہ ہوتا ہے اور اگر یہ کم تعداد میں ہوں تو ایسا معاشرہ پسماندہ،وحشت زدہ، بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے۔جس معاشرے میں اصحاب خیر ہوں، مثبت سوچ رکھنے والے ہوں اور معاشرے میں خیر کی فصل کاشت کرنے والے بکثرت ہوں ایسے معاشرے میں مثبت رویئے پنپتے ہیں اور جس معاشرے میں جاہل،خودغرض، شریر، مفسد اور حاسد لوگوں کا غلبہ ہو وہاں لڑائی جھگڑا، قتل و غارت، لوٹ مار، جھوٹ اور فریب پروان چڑھتا ہے جس کا خمیازہ خود ان رذیل عادات اور صفات کے حامل افراد کو بھی بھگتناپڑتا ہے اور ان کے ارد گرد کے دیگر افراد کو بھی، ان مفسدین کے ہاتھوں سے کسی کو خیر نہیں ملتی ایسی سوسائٹی جسں میں مفسدین، بدمعاشوں، قانون شکنوں، لاف زنوں اور جھوٹوں کی مذمت اور مزاحمت کی بجائے تعریف اور عزت کی جائے اس میں بدکردار اور بدخصلت لوگ پروان چڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں، ایک بار میرے ایک بہت اعلی تعلیم یافتہ اور پیارے دوست نے سرراہ ایک شخص سے تعارف کروایا کہ یہ ہیں مسٹر فلاں جنھوں نے اتنے قتل کیئے اور حال ہی میں سزا کاٹ کر آئے ہیں یہ سنتے ہی وہ شخص اسطرح سے سینہ تان کر کھڑا ہوگیا کہ جیسے بہت بڑا کارنامہ کیا ہو، بعد میں جب میں نے اپنے دوست کو احساس دلایا کہ ایسے لوگوں کی تعریف جرائم کو بڑھاوا دیتی ہے تو انھوں نے کمال وسیع القلبی سے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔اسی طرح میرے ایک دوست تھے جنھیں اللہ نے ایک ایسا عہدہ دیا جس کی بدولت وہ بہت کچھ کر سکنے کی پوزیشن میں تھے انھیں انکی والدہ نے پرانے دشمنوں سے حساب برابر کرنے کا کہا تو انھوں نے والدہ کو انتہائی نرمی سے جواب دیا:امی جان یہ عہدے خلق خدا کی خدمت اور انکو آسانیاں پہنچانے کے لیئے ہوتے ہیں دشمنیاں نبٹا نے کے لیئے نہیں ہوتے، مجھے جو تنخواہ ملتی ہے وہ سارے پاکستان کے لوگوں کے ادا کردہ ٹیکس سے ملتی ہے اس میں سب دوست دشمن شامل ہیں تو میں کیسے اللہ کا چور بنوں؟ یہ سن کر انکی والدہ محترمہ جو کہ فطرتا'' ایک نیک خاتون تھیں بہت خوش بھی ہوئیں اور مطمئن بھی اصحاب خیر کا یہی طریقہ معاشرے کی سدھار کا باعث بنتا ہے، صاحب اقتدار جب دشمنی اور حسد کے جذبات سے مغلوب ہوتا ہے تو اس کا نقصان نہ صرف خود اسکی ذات کو ہوتا ہے بلکہ اسکا منفی رویہ عوام الناس کے لیئے مثال اور منفی رویوں کے بڑھاوے کا باعث بنتا ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اصحاب خیر حکمران ہوں تو عصبیتیں اور دشمنیاں دم توڑ جاتی ہیں انسان اپنی صلاحیتوں کا استعمال خیر کے فروغ میں کرتے ہیں نتیجتا'' معاشرے میں امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہوتا ہے، برائی کو ہمیشہ اچھائی سے شکست دی جا سکتی ہے برائی کے مقابلے میں برائی مزید برائیوں اور فساد کا باعث بنتی ہے، ہر معاشرے میں مختلف مزاجوں کے لوگ ہوتے ہیں کچھ جھگڑالو ہوتے ہیں، کچھ خود پسندی اور احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور کچھ لالچی خود غرض اور کمینہ صفات کے مالک ہوتے ہیں ان سب سے کس طرح برتاوء کرنا چاہئیے اس کا سلیقہ ایک عمر کے تجربے سے ہی حاصل ہوتا ہے،ڈھلتی عمر میں جا کر پتہ چلتا ہے کہ ارد گرد کس قسم کے لوگ ہیں اور ان سے برتاوء میں کیسا رویہ اور کیا تدابیر اختیار کرنی چاہئیں تاکہ انکی اناوئں کی بھی تسکین ہوتی رہے اور ان کے شر سے بھی بچا جا سکے، وقت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ جھگڑالو بد مزاج، خود پسند اور احساس کمتری کا شکار لوگ فی الواقع نفسیاتی مریض ہوتے ہیں ان سے معاملہ درپیش ہو تو ہمیشہ انکو بیمار سمجھ کر ایک زیرک تیماردار اورمعالج والی حکمت عملی سے کرناچاہئیے ہوتا ہے، لالچی اور کمینہ صفت لوگوں کو تو زیادہ منہ لگا نا اپنے لیئے مستقل درد سر پالنے والی بات ہوتی ہے، ہمیشہ صاحب علم، نیک فطرت لوگ ہی اچھے اور قابل اعتماد دوست ہوتے ہیں ان کی صحبت خوشبودار پھولوں کی مانند ہوتی ہے جسکی مہک ہماری زندگی کو خوشگوار بناتی ہے ان کے پاس گزارے ہوئے لمحات حاصل زندگی ہوتے ہیں لیکن ان باتوں کی جب سمجھ آتی ہے اس وقت زندگی کا سورج ڈھل چکا ہوتا ہے اور ہم زندگی کے سرداورگرم تھپیڑوں کی مار کھا چکے ہوتے ہیں
ِ