شہرِ اقتدارسے متصل بھارہ کہو کی خستہ حالی
بھارہ کہو شہرِ اقتدار کی بغل میں ہے، جسے بنی گالہ کی پہاڑیوں سے دیکھا اور اس کی جغرافیائی اہمیت سمیت معروضی حالات کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ مذکور شہر اب کہ مضافات کے سوا کوہسار اور کشمیر کے لئے ایک تجارتی مرکز میں ڈھل چکا ہے، جس کی گنجان آبادی نے اسے بری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔ ایک ہجوم نے شہر کو آ لیا ہے۔ شہر کی وسعت اس ہجوم کے سامنے بے معنیٰ ہو کر رہ گئی ہے۔ گویا شہر کا دامن کم پڑنے کے ساتھ ساتھ تار تار بھی ہو گیا ہے۔ اس بھیڑ کے سبب بے ترتیب مکانات کے علاوہ تجارتی عمارتوں اور پلازوں کے عفریت سے ہر ایک مکین خوف زدہ ہے۔ ہر سُو تجاوزات کی بھرمار ہے، جس کے سبب نظامِ نکاسیِ آب مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ کئی لوگوں نے حتیٰ کہ نالوں پر گھر، دکانیں اور پلازے تعمیر کر لیے ہیں، جس کی وجہ سے بارش کے دوران گلیاں اور سڑکیں نہر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ منصوبہ سازی کے فقدان اور بے ترتیب عمارت گری کے باعث گلیاں اور راستے تنگ ہو کر رہ گئے ہیں۔ مکینوں نے صدر دروازوں کے سامنے ذاتی سواری گزارنے کی خاطر طرح طرح کے ڈھیر تعمیر کر لیے ہیں، نتیجتاََ بیس فٹ کی گلی سکڑ کر دس فٹ کی ہو کر رہ گئی ہے۔ سیورج کے سوا دیگر غلاظت کے انبار کورنگ و دیگر ایسے نالوں میں پھینکے جاتے ہیں جو براہِ راست راول ڈیم میں جا گرتے ہیں، جس کا پانی جڑواں شہروں کو پینے کے لئے مہیا کیا جاتا ہے۔ کوڑا کرکٹ کو تلف کرنے کا کوئی نظام نہیں، اسے بھی ان نالوں کی نذر کیا جاتا ہے۔ سیورج اور صاف پانی کے اتصال کی ایک الگ داستان ہے۔ کورنگ، جس میں عشروں قبل پہاڑوں سے شفاف پانی بہہ کر آتا اور راول ڈیم کی آغوش میں جا گرتا تھا، اب کثافت اور تعمیرات کی نذر ہو چکا ہے۔ تجاوزات کے باب میں دکانداروں نے حتی المقدور اپنا حصہ ڈالا ہے، جس کی وجہ سے گزرگاہیں معدوم ہو گئی اور گلیاں سکڑ گئی ہیں۔ ریڑھی بانوں نے سڑکوں اور گزرگاہوں کا الگ سے قبضہ کر رکھا ہے، جس سے ہر ایک شہری واقعتاََ اذیت کا شکار ہے۔گلی کوچوں کے علاوہ سملی ڈیم روڈ میں تین تین فٹ کے گڑھے پڑے ہیں، جہاں ہمہ وقت پانی جمع رہتا ہے، جو گوناگوں امراض کا سبب ہے۔ اگر کوئی سڑک تعمیر یا مرحمت کی جاتی ہے تو اطراف میں نکاسیِ آب کے لئے پائپ لائنیں نہیں بچھائی جاتیں، نتیجتاََ چند ماہ بعد ہی مرحمت شدہ سڑک کی پائیداری سب پر عیاں ہو جاتی ہے۔ محلوں کی بیشتر گلیاںناپختہ ہیں، جہاں مکینوں کے جوتے رات دن خاک چاٹتے رہتے ہیں۔ریڑھی بانوں کی بھرمار اور دکانداروں کی تجاوازات کے سبب مری کو جاتی شاہراہ ہمہ وقت بھیڑ اور ازدحام کا شکار رہتی ہے۔ گئے وقتوں میں حکومتوں کی جانب سے اوورہیڈ کا وعدہ بھی کیا گیا نیزبیرونِ شہر راستے یا بائی پاس پر مباحث بھی جاری رہے مگر عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ سرکاری فائلیں اب بھی گرد سے اَٹی پڑی ہیں۔ اوور ہیڈ یا بیرونِ شہر راستہ نہ ہونے کے باعث کوہسار کا رُخ کرنے والے اور مقامی لوگ گھنٹوں بیچ چوراہے خوار ہوتے ہیں۔ کسی بیمار کو اسلام آباد کے ہسپتالوں کا رخ کرنا ہو تو اسے الگ ایک اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے کہ بھارہ کہو ایسے گنجان آباد شہر میں ایک ڈسپنسری کے سوا کوئی سرکاری ہسپتال نہیں، لوگوں کو کرہاََ اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔ تقریباََ ایک عشرہ قبل اغلباََ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھارہ کہو قدم رنجہ ہوئے اور ہسپتال کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا، جس نے آئندہ برسوں، عشروں میں وفا ہونا ہے اور وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے؟ اس کے پیشِ نظر نجی ہسپتالوں کا مافیا عوام کے استحصال میں پوری آب و تاب کے ساتھ سرگرم ہے۔ ہسپتال مافیا اور قبضہ مافیا پر کئی مقالے تحریر کئے جا سکتے ہیں۔ آئے روز جرائم اس کے سوا ہیں۔ بھارہ کہو کی لاکھوں کی آبادی اور مضافات کے لئے محض ایک تھانہ ہے۔ تھانے کی حدود میں جرائم کی فہرست جاری کی جائے اور اعداد وشمار سامنے لائے جائیں تو گویا کہرام مچ جائے۔ بھارہ کہو میں طالبات کا ایک کالج ہے جب کہ اس گنجان آباد شہر اور مضافات کے طلبہ کے لئے ایک کالج بھی نہیں۔ تشنگانِ علم مجبوراََ اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے اور داخلے کے لئے ایڑیاں رگڑتے ہیں۔بھارہ کہو کے رہائشیوں کے ہاں ہیجان اور تذبذب اس لئے بھی ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں عوام کے لئے کوئی پارک نہیں، نیز بچوں کی تفریح کے لئے کوئی ایسا مقام نہیں کہ جہاں تازہ آب و ہوا میں چند ثانیے بِتا سکیں۔ ہر ایک شہری درحقیقت اذیت میں مبتلا ہے اور نفسیاتی دبائو کا شکار ہے۔ مقامی حکومت سمیت انتظامیہ سے درخواست ہے کہ بھارہ کہو ایسے اہم شہر کی خستہ حالی کو خاطر میں لائیں تاکہ مکینِ بھارہ کچھ آسودہ ہو سکیں۔