کہانی ختم ہونے کو ہے

پی ٹی آئی حکومت کئی قسم کی مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ لوگ سوشل میڈیا پر یاد دلاتے ہیں کہ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان نے قوم سے کیا کیا وعدے کئے تھے۔عمران خان کی تقریروں کے وہ کلپس بھی چلائے جاتے ہیں جس میں وہ بڑے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ماضی میں کی گئی اُن کی ایک تقریر تو زبانِ زدِ عام ہے کہ پٹرول اور اشیاء پر ٹیکس بڑھتا ہے تو سمجھ لو حکمران چور ہے۔ اب تو پٹرول اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں جو تیزی آئی ہے، اُس نے عام عوام کا جینا دوبھر اورمشکل کر دیا ہے۔ چھوٹے درجے کے تنخواہ دار سے لیکر عام متوسط طبقے اور مڈل کلاس کے کاروباری لوگ تک پریشان اور حالات سے سخت نالاں اور دل برداشتہ ہیں۔حکومت کی کوئی سمت اور وژن نظر نہیں آتی۔ ترجمانوں کی ایک کثیر فوج ہے جو ہر وقت دوسروں پر دشنام طرازی کرتی رہتی ہے۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ آپ نے ملک میں شہدکونسی اور دودھ کی نہریں بہا دی ہیں۔اب براڈ شیٹ اور ملائیشیا میں پی آئی اے کے طیارے کی ضبطگی نے نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس پر بھی پوری قوم اور اپوزیشن جماعتوں کا سخت ردِعمل ہے۔ آٹھ سال کے طویل التواء اور خاموشی کے بعد بالآخر پی ٹی آئی نے اعتراف جرم کر ہی لیا ہے کہ وہ غیر ممالک سے ممنوعہ فنڈنگ لیتے رہے ہیں۔ ان ممالک میں بھارت اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔ 19 جنوری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’’پی ڈی ایم‘‘ نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستا ن کو پھرتی دکھانا ہو گی اور اکبر ایس بابر کے دائر کردہ فارن فنڈنگ کیس پر جلد اپنا فیصلہ دینا ہو گا کہ پی ٹی آئی کو غیر ممالک سے ہونے والی فنڈنگ ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مجوزہ قوانین کیمطابق اگر ثابت ہو جائے کہ کوئی سیاسی جماعت غیر ممالک سے ممنوعہ فنڈنگ میں ملوث پائی گئی ہے تو اُس پر پابندی لگ سکتی ہے ۔پی ٹی آئی کے اس اعتراف کے بعد کہ اُس نے ممنوعہ فنڈنگ اپنے بعض ایجنٹوں کے ذریعے حاصل کی ہے۔ وہ ایک نئے گرداب میں پھنس گئی ہے جس سے اب اُس کا نکلنا مشکل نظر آتا ہے۔ مستقبل میں پی ٹی آئی کے حالات کیسے ہوں گے، ابھی سے نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے عفریت نے بھی اسکی مشکلات میں اضافہ کیا ہے، عام آدمی اِسکی اڑھائی سالہ کارکردگی سے قطعی خوش نہیں۔ حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے اپنے ووٹرز بھی اس سے بدظن نظر آتے ہیں۔نجی ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بھی حکومتی وزراء اور ترجمانوں کے لیے اپنی حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ وزیراعظم کے ایک مشیر ندیم افضل چن انہی پالیسیوں سے بدظن ہوتے ہوئے اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ کچھ اورلوگ بھی ساتھ چھوڑ جائیں گے جہاں تک حکومت کی اتحادی جماعتوں کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اُن پر حکومت کا ساتھ دینے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا دبائو ہے۔ جس روز یہ دبائو ہٹا اور اسٹیبلشمنٹ نے کنارہ کشی اختیار کی۔ حکومت گر جائے گی ۔ اطلاعات ہیں کہ درونِ خانہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے بڑھ گئے ہیں۔ اُن کے مابین مستقبل کا سیاسی اور حکومتی روڈ میپ ڈسکس کیا جا رہا ہے۔براڈ شیٹ ’’سکینڈل‘‘ جب سے سامنے آیا ہے۔ حکومتی صفوں میں بھی ہلچل مچی نظر آتی ہے۔ حکومت کاوے موسوی کے بیان کو پہلے نواز شریف کے خلاف استعمال کر رہی تھی لیکن جب سے موسوی نے یہ سٹیٹمنٹ دی ہے کہ اُس سے جو پاکستانی حکومتی وفد ملاقات کے لیے آیا اُس میں شہزا داکبر کے علاوہ اسٹیبلشمنت کے بھی چند سرکردہ لوگ شامل تھے اور یہ کہ ان افراد کے حوالے سے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ اُن سے اپنے کمیشن کا مطالبہ بھی کر رہے تھے جو اربوں میں بنتا ہے۔ موسوی نے مزید یہ بھی بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ کے بعض اہم افراد ایسے بھی ہیں کہ جن کی اربوں کی جائیدادیں برطانیہ اور دیگر ممالک میں موجود ہیں۔ ان انکشافات کے بعد حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں اور وہ اب دفاعی پوزیشن میں جاتی نظر آتی ہے۔ اللہ میرے ملک کے حال پر رحم کرے۔
٭…٭…٭