ناا ہلیوں کی ادائیگیاں

تحریک انصاف کے اعلان کردہ لوگوں کا تعاقب موجودہ حکومت گزشتہ ڈھائی سال سے کرر ہی ہے۔حکومتی وزراء کی یہ بات ٹھیک ہے کہ کرپشن کے مقدمات مسلم لیگ نے پی پی پی کے رہنمائوں اور پی پی پی نے مسلم لیگ ن پر اپنے اپنے دور حکومت میں بنائے تھے اب یہ اور بات ہے نیب کو یہ مقدمات اب یاد آئے ۔حکومت و نیب کے تجویز کردہ کرپٹ لوگوںکی جیبوں سے الزام شدہ پیسہ نکلے تو کوئی بات نہیں مگر عدالت میں جب سزا تجویز کرنے کیلئے لے جایا جاتا ہے تومعزز جج صاحبان کومعلوم ہوتا ہے کہ کیس صحیح طریقے سے نہیں بنایا گیا۔اور نتیجے میں یہ سب میڈیا ٹرائل لگتا ہے ۔ حکومت کہتی ہے کہ نیب سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ، حزب اختلاف والے اپنی اپنی حکومتی باریوں میںایک دوسرے پر مقدمات قائم کرتے رہے ہیں۔ پی پی پی نے مسلم لیگ ن پر ، اور مسلم لیگ ن نے پی پی پی پر مقدمات بنائے تھے حکومتی زعماء کی بات بالکل درست ہے ، اب یہ مقدمات کئی سالوں بعد نیب کویاد آئے ہیں تو اس میں حکومت کا کیا قصور۔؟عدالتیں تو کہتے ہیں ثبوت کی محتاج ہوتی ہیں بد قسمی سے ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والوںکے پاس تو عزیر بلوچ کے لیئے بھی کو ئی ثبوت نہیںجس بناء پر وہ کچھ مقدمات میںضمانتیںلے چکا ہے، جب عوام یہ کہتے ہیں کہ کرپٹ لوگوں سے رقم کی وصولی کب ہوگی، ؟؟ تو مشیران کی فوج ظفر موج فرماتی ہے کہ کرپٹ لوگوں کے پاس ملک کا لوٹا ہوا بہت پیسہ ہے ، وہ مہنگے وکیل کرتے ہیں اور سزائوں سے بچ جاتے ہیں ، ایک عجیب منطق ہے ! اس بغیر ثبوت والے مقدمات میں مبینہ کرپٹ لوگوں کو جیل سے لانے لے جانے ، سیکورٹی، متعین کردہ نیب افسران کی بھاری تنخواہیں یہ اس غریب ملک کے ٹیکسوںکی آمدن سے جاتے ہیں، اخراجات کے معاملے میںہم بہت فیاض ہیں اسلئے ہمیںکوئی دکھ نہیں جب ہم اپنے بیرون ملک اہم مقدمات میں بھی بھرپور انداز میں نااہلی کا ثبوت دیتے ہیںہم نہ صرف ملک میںاپنے تجویز کردہ کرپٹ لوگوںکو سزا نہیں دلا سکتے ، ہم تو اپنے مقدمات بیرون ملک بھی پیروی نہیں کرتے ، نااہلیت کا بھر پور ثبوت دیکر دنیا میں ایک طرف جگ ہنسائی ، اور دوسری جانب بھاری جرمانے ادا کرتے ہیں۔
ؓبڑا چرچہ ہے آج کل ’’براڈ شیٹ ‘‘ کمپنی اسے قانون کہا جائے یا ’’ شرلاک ہوم کی کمپنی ‘‘ کہا جائے جسے سابقہ آمر نے 200 ان کے بقول کرپٹ افراد کی بیرون ملک جائیدادوں کا پتہ کرنے کا ٹاسک دیا ، اس ادارے نے محنت کی یا نہیں اسکا علم نہیں مگر جو نام دیئے گئے توان میں سے ایک بڑی سیاست دانوںکی تعداد پرویز مشرف کے اقتدار کو طول دینے کیلئے پرویز مشرف سے مک مکاکرکے ، انہیں وردی سمیت یا شیروانی میں تادم مرگ بھوک ہڑتا ل کی طرح تادم مرگ صدر بنانے کیلئے رضا مند ہوگئی ، شاید اس وجہ سے کہ انہیں اپنی بیرون ملک جائیدادوںکاخوف ہو ، بہر حال اس وقت نیب نے اس ادارے کے ساتھ معاہدہ کیا ، مگر تین سال کے اندر ہی نیب نے براڈشیٹ سے معاہدہ ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ، یہ معروف قانون ہے کہ اگر آپ کوئی معاہدہ کریں اور اسے درمیان میں ختم کریں تو اس کا ہرجانہ ہوتا ہے ، اور ایک قسط جو تقریباً 6 ارب ڈالر ہے ادا کرنا پڑی ۔
براڈ شیٹ نے کہا کہ ہمیں نے نواز شریف کی ایک جائیداد جس کی مالیت 100 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے ، اس اطلاع پر بھاگ دوڑ شروع ہوگئی ، شہزاد اکبر اور دیگر اعلی حکام کے اجلاس برطانیہ میں براڈ شیٹ کے مالک سے شروع ہوگئے انہیں اس بات پر راضی کرنے لگے کہ معاہدہ ختم کرنے کے مقدمے میں انہوں نے جو برطانوی عدالت میں فیصلہ لیا ہے اسے مؤخر کردیں ، اور قسطوں پر بات کریںنیز نواز شریف کے پیسے کا سراغ ہمیں ضرور دیں۔براڈ شیٹ کو جب پرویز مشرف حکومت نے یہ ٹاسک دیا تھا اس وقت براڈ شیٹ نئی نئی وجود میںآئی تھی ،پاکستان کی حکومت کہیںیا نیب ان کی نااہلی کی وجہ سے اس کمپنی کی تو چاندی ہوگئی ۔تھوڑ ے عرصے میںبذریعہ پاکستان وہ کمپنی مالدار ہوگئی اور ابھی یہ قصہ باقی ہے۔مشرف کے سیاسی حریف دو سو لوگوں کی لسٹ دی گئی جو سیاسی حریف تھے مشرف نے اس کے بعد جو لوگ ان کے ساتھ مل گئے ہیں ان کے نام لسٹ سے ہٹا دیئے پھر 2003 ئء میں یہ کنٹریکٹ ختم کر دیا گیا۔ پرویز مشرف کے دور میں کہا گیا کہ ہم نے اتنے ارب ڈالر یا روپے وصول کر لیے ہیں اگر آپ نے بلین پکڑ لیے ہیں تو ان کے ساتھ جو کنٹریکٹ تھا کہ بیس یا پچیس فیصد دیں گے تو ان کا پچیس ملین ڈالر بنتا تھا انہوں نے ادائیگی کا مطالبہ کردیا۔
یہ ایک بڑا گھمبیر معاملہ ہے جس کے متضاد دعوے اور بیانات سامنے آرہے ہیں اپوزیشن اور حکومتی ارکان حسب سابق ایک دوسرے پر انگلیاں اُٹھارہے ہیں۔ اس معاملے کو کسی صورت ماضی کی طرح شور شرابے کی نذر نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان اپنے معاشی مسائل پر قابو پانے کے لئے دن رات کوششیں کررہا ہے لیکن ریکوڈک جہاں پانچ ارب ڈالر مقدمہ ہارنے کی وجہ ادا کرنے پڑے، بھارت سے ہم غیرقانونی ڈیمز کا مقدمہ وکلاء کو بھاری فیس ادا کرکے بھی ہار چکے ہیں۔ اب براڈ شیٹ جیسے معاملات ساری محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہیں۔ پی آئی اے کی برقبضہ یہ تمام معاملات وطن عزیز کی جگ ہنسائی کیلئے کافی ہیں۔ہر معاملے کو ہم سیاسی سکورنگ کی نظر سے دیکھتے ہیں، پی آئی اے کو لیز پر ’’ نواز دور میںلیا تھا ‘‘ اس طرح کے نہائت بچکانہ بیان ہماری سنجیدگی کا پتہ دیتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنی کابینہ کو روز بہتر deliver کرنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ ملک آگے بڑھے ، اس طرح کی غیر سنجیدگیوں، اور کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے والا معاملہ ملکی خزانہ کو خوامخواہ نقصان پہنچانا ہے اور ایٹمی طاقت کے حامل ملک کی سوچ اور کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔