داخلی سلامتی کا چیلنج اور سیاسی قیادت کی ذمہ داریاں
وطن عزیز اس وقت بے شمار اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے ۔ ہمارا دشمن رنگ و آہنگ بدل کر ہم پر حملہ آور ہے ۔ وہ مختلف طریقوں سے پاکستان کو داخلی خلفشار سے دوچار کرنے کے درپے ہے۔ نئے سال کا آغاز ہوتے ہی سب سے پہلے ہزارہ برادری کے بے گناہ اور غریب مزدوروں کوانتہائی سفاکیت سے قتل کیاگیا ۔ کوئٹہ کے جنوب مشرق میں ضلع کچھی کے معروف درہ بولان میں واقع مچھ کے علاقے میں کوئلے کی بہت سی کانیں ہیں جن میں ’ پنڈل گڈ ‘ نامی لیز پر مسلح افراد نے کان کنوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انھیں بے دردی سے قتل کر دیا۔اس دلخراش واقعے کے بعد وزیر اعظم پاکستان کوئٹہ تشریف لے گئے اور مظلوموں کی داد رسی کی ۔ بعدازاں آرمی چیف نے بھی اعلیٰ فوجی قیادت کے ہمراہ کوئٹہ کا دورہ کیا اور شہدأ کے ورثاء کے سرپر دستِ شفقت رکھا اور دہشتگردوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا ۔ اس ظلم و بربریت کی ذمہ داری نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کر لی لیکن سب جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں اس طرح پیش آنیوالے واقعات کے پیچھے ہمارے دشمن ممالک بالخصوص بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔
پاکستان ایک مضبوط اور توانا ایٹمی ملک ہے اور اسلامی دنیا کی قیادت کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔ اس کا مثبت تصور مسخ کرنے کیلئے ہمارا دشمن ہر حربہ آزماتا ہے اور اسے غیر مستحکم کرنے کیلئے ہر چال چلتاہے ۔ ایک طویل عرصے سے یہاں انتشار و افتراق کی فضا پیدا کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں کبھی فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی کوشش کرتی ہیں تو کبھی نسلی اور لسانی عصبیتوں کو ابھارتی ہیں ۔ پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر ظاہر کرنے کیلئے کبھی کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا جاتا ہے تو کبھی کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے بچوں کو آگ اور بارود کا رزق بنادیا جاتا ہے ۔ آئے روز عوام کی حفاظت پر مامور ایف سی کے جوانوں پر حملے کر کے انھیں شہید کردیا جاتا ہے۔ ان تمام تر واقعات کے تانے بانے پڑوسی ممالک میں موجود دہشتگردوں کے مراکز سے ملتے ہیں ۔ بلوچستان میں ’را‘ کی مبینہ مداخلت پر کلبھوشن جادیو کی رنگے ہاتھوں گرفتاری ایک زندہ مثال ہے ۔
گزشتہ ماہ یورپی یونین کی ایک تحقیقاتی این جی او ’ای ڈیوس انفولیب‘ کی رپورٹ قابلِ غور ہے جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا کے 116 ممالک میں 750 سے زائد جعلی خبروں کی ویب سائٹس ملی ہیں جن میں جعلی صحافی پاکستان کیخلاف جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلا رہے تھے ۔ پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کیلئے دس سے زیادہ اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ اور غیر تسلیم شدہ این جی اوز اور تھنک ٹینکس کی نشان دہی کی گئی جو انسانی اور اقلیتی حقوق کے مسائل کا استعمال کرتے ہوئے جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں پاکستان کیخلاف ساز باز میں مصروف عمل تھے ۔ جہاں اس رپورٹ سے ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ دشمن ایک منظم اور مربوط پروپیگنڈے کے ذریعے وطن عزیز کو عالمی تنہائیوں کا شکار کرنا چاہتا ہے وہیں یہ حقیقت بھی طشت از بام ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں اقلیتوں پر ہونیوالے مظالم کے پیچھے کون کارفرما ہے ۔ ظاہر ہے پاکستان میں کسی بھی اقلیتی گروہ پراگر کوئی حملہ ہو تو ا س کابراہِ راست فائدہ ہمارے دشمن ممالک کو ہوتا ہے ۔ وہ اس طرح کے ناپسندیدہ واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان کو اقلیتوں کیلئے ایک غیر محفوظ ملک ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دوسری طرف اقلیتوں پر ہونیوالے مظالم ہماری داخلی سلامتی کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج ہیں ۔
دشمن ہمہ وقت متحرک ہے ۔ وہ ہر سمت سے حملہ آور ہو کر پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے ۔ وہ پاکستان کو سیاسی،دفاعی، معاشی اورمعاشرتی طور پر عدمِ استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے ۔ اکھنڈ بھارت کا قیام بی جے پی کا ایک دیرینہ خواب ہے جس کی تشکیل کیلئے وہ ہر محاذ پر حملہ آور ہے ۔ بارہا ایسے ہوا کہ پڑوسی ممالک کے تربیت یافتہ دہشت گرد رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور انکی پکی پکائی کھیر دلیا ہو کر ہ گئی ۔لیکن ہماراکینہ پرور دشمن برابر اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس خطۂ پاک کو نیست و نابود کر ڈالے ۔ اس منصوبے کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ افواج پاکستان ہیں جنھوں نے 9/11 کے بعد اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے وطن عزیز میں امن و آشتی کو بحال کیا اور دشمن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا ۔ سوات اور وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا کیا ۔ صبح ، دوپہر اور شام ہونیوالے دھماکوں اور حملوں سے پوری قوم کو نجات دلائی اور دشمن کو چاروں شانے چت کر دیا۔بلوچستان میں قیام امن کی خاطر ہماری افواج کی دی گئی قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ہماری افواج دن رات چوکنا رہ کر دشمن کے ہتھکنڈوں کامقابلہ نہ کریں توشاید ہماراحال بھی افغانستان، شام، عراق اور لیبیا جیسا ہو۔ ایسے حالات میں سیاسی بازی گروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ دن رات افواج ِ پاکستان کیخلاف تباہ کن بیانیے کو فروغِ دیکر کہیں دشمن کے مفادات کو تحفظ تو نہیں دے رہے؟ ان سیاسی بزرجمہروں کو یہ اندازہ کب ہوگا کہ پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔جی ایچ کیو کے باہر دھرنا دینے کی باتیں کرنیوالے اقتدار کے بھوکے بھیڑیے اب عوام اور فوج کو دُوبدُوکرنا چاہتے ہیں۔ کیا ہماری موجودہ معاشی اور علاقائی صورتحال اس طرح کے بیانات یا اقدامات کی متحمل ہوسکتی ہے؟ ہماری سیاسی قیادت کو قومی مفاد کا خیال کرتے ہوئے فوج اور عوام کو لڑانے کی سعیٔ لاحاصل سے اجتناب برتنا چاہیے اور سیاسی مسائل کے حل کیلئے پارلیمنٹ کے فورم پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا چاہیے ۔