2020… 85مسلمان 6عیسائی لو جہاد کا شکار

بھارت میں ہندو مذہبی عصبیت مودی سرکار کی شکل اختیار کر کے جو گل کھلا رہی ہے اس کا سب سے بڑا براہ راست نشانہ مسلمان ہیں اور ہر روز’ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر ‘کی صورتحال جنم لیتی ہے۔ مسلمانوں بالخصوص مسلمان نوجوانوں کیخلاف بغض وعناد کے اظہار کیلئے لو جہاد کا جو حربہ اختیار کیا گیا ہے اس نے ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں بہت شدت اختیار کر لی ہے ۔ اس مسلمان دشمن عمل جسے ان ر یاستوں میں باقاعدہ قانون کی شکل دے دی گئی ہے، اسکے خلاف احتجاجی آوازوں پر کان نہیں دھرے گئے تو جمیعۃ علما ہند نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ میں رٹ درخواست دائر کی گئی ہے۔ امکان ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک الٰہ آباد ہائی کورٹ میں یہ رٹ درخواست زیر سماعت آجائے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے اس رٹ درخواست کی بنیاد یوپی کے شہر سیتاپور میں ’لو جہاد‘ کے نام پر دو خواتین سمیت دس افراد کی گرفتاری کو بنیاد بنایا گیا ہے اور درخواست کی گئی ہے کہ ان افراد کے خلاف درج مقدمہ کالعدم قرار دے کرانہیں جیل سے رہائی دلوائی جائے۔ رٹ درخواست میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی ریاستی حکومتیں لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کر رہی ہیں۔ آئین ہند کے ذریعہ حاصل بنیادی حقوق کو اقتدار کے بل بوتے پر پامال کر رہی ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کیمطابق گرفتار شدگان کی جانب سے وکیل احمد قاسمی کی وساطت سے جبکہ ایڈووکیٹ عارف علی، ایڈووکیٹ مجاہد احمد اور ایڈووکیٹ فرقان علی انکی معاونت کر رہے ہیں۔ رٹ درخواست کی سماعت کے موقع پر سینکڑوں مسلمان وکلاء نے عدالت عالیہ میں پیش ہونے کا اعلان کیا ہے جبکہ بعض ہندو وکلاء نے بھی اظہار یکجہتی کے طور پر پیش ہونے کا اعلان کیا۔ یاد رہے حال ہی میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ’بالغ لڑکے اور لڑکی کو مرضی سے شادی کرنے اور کوئی بھی مذہب اختیار کرنے کا آئینی حق حاصل ہے‘ اسکے باوجود اتر پردیش کی حکومت اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمانوںکو ہراساں کر رہی ہے۔ انہیں مسلسل پریشان کر رہی ہے اور غیر قانونی طورپر جیلوں میں دھکیل رہی ہے۔ اسکی بدترین مثال سیتاپور میں لو جہاد کے نام پر ایک مسلمان نوجوان ، اس کے والد ، والدہ اوربہن سمیت دس افراد کی گرفتاری ہے۔ حالانکہ سکھا نام کی ہندو لڑکی نے پولیس اور عدالت میں بیان دیا کہ اس نے اپنی مرضی سے مسلمان نوجوان سے شادی کی ہے۔ رٹ درخواست میں کہا ہے کہ خواتین سمیت دس بے گناہ افراد کی گرفتاری سے علاقے میں سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ خواتین کی گرفتاری کی وجہ سے انکے معصوم چھوٹے بچے بھی سخت پریشان ہیں۔
ادھر جمعیۃ علما ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا ارشد مدنی نے کہا ہے کہ لو جہاد جیسی قانون سازی آئین کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ ہر شہری کو مذہب کی مکمل آزادی بلکہ اسکے کھلے اظہار اور اختیار کرنے کی بھی آزادی ہے لیکن بالخصوص اتر پردیش حکومت اس قانون کو مسلمانوں کے خلاف دھڑلے سے استعمال کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ اتر پردیش حکومت نے حال ہی میں ہائی کورٹ میں جو رپورٹ پیش کی اس میں بتایا گیا ہے لو جہاد کے قانون کے تحت سال 2020 میں 85 افراد کے خلاف مقدمات درج کر کے گرفتاری کی گئی ۔ان میں 79 مسلمان اور 6 عیسائی شامل ہیں۔ اس سلسلے میں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر کوئی ہندو لڑکا اور مسلمان لڑکی شادی کرلے تو انکے خلاف کارروائی نہیںکی جاتی بلکہ پولیس ان کا تحفظ کرتی ہے۔ 2020ء میں چار مسلمان لڑکیوں نے ہندولڑکوں سے شادی کی۔ ان میں سے دو کے والدین شکایت لے کر تھانے گئے تو الٹا ان پر لڑکے اور لڑکی کو ہراساں کرنے کا مقدمہ بنادیا گیا۔ یہ دراصل متعصب ہندو ذہنیت کا مظاہرہ ہے جو بی جے پی کے دور حکومت میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔
دریں اثناء مودی سرکار ملک میں گائے کے ’تقدس‘ کو فروغ دینے کیلئے سردھڑ کی بازی لگا رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے 2019 میں راشٹریہ کام دھینوآیوگ (کاؤ کمیشن) کا قیام گائے کے حوالے سے جنون کا کھلا اظہار ہے۔ کاؤ کمیشن کے سربراہ ولبھ بھائی کاتھیریا کے عجیب و غریب دعویٰ کے مطابق گائے ساہنس سے بھری ہوئی ہے۔ اس نے گائے کے گوبر سے تیارکردہ ایک چپ لانچ کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ چپ موبائل فوج سے پیدا شدہ تابکاری کے اثرات کو ختم کرتی ہے۔ ساتھ ہی اس نے مزید مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ ’پنج گاویہ‘ سے کورونا کے 800 مریض شفا یاب ہو چکے ہیں۔ یقیناً یہ جاننے میں دلچسپی ہوگی کہ یہ ’پنج گاویہ‘ کیا ہے۔ یہ گائے کا گوبر، اسکے پیشاب، اس کا دودھ اور اس کے دودھ سے بنی دہی کا ملغوبہ ایک مشروب کی شکل میں ہے۔ یاد رہے بھارت کی بعض ریاستوں میں گائے کا گوشت کھلے عام بکتا ہے۔ جن میں گوا، مغربی بنگال ، کیرالہ، آسام، میزورام ، ناگا لینڈ، مگھیالیہ اور تری پورہ شامل ہیں۔ یہاں ہندو بھی گائے کا گوشت بڑی رغبت سے ڈکار جاتے ہیں۔ جبکہ حال ہی میں بھارتی ٹیم کے بیرون ملک گائے کا گوشت کھانے کی خبر سے پورے ملک میں سیاپا پیٹا گیا تھا۔
گائے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے ایک کتابچہ حکومت کی طرف سے شائع کیا گیا ہے جس میں ڈاکٹر مدن موہن بجاج کا یہ نظریہ بھی شامل ہے کہ گائے کو ذبح کرنے سے زلزلہ آتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق جب گائے کو ذبح کیا جاتا ہے تو ا سکے درد کی لہریں طبعیاتی لہروں یا صوتی لہروں کا باعث بنتی ہیں اور یہ سب ’اینٹائن پیس ویز‘(EPW) کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس سے عملاً یہ کیفیت زلزلہ کا باعث بنتی ہے۔ تاہم اس عجیب و غریب سائنسی نظریہ کو کسی ایک سائنس دان نے قبول نہیں کیا۔ اسی طرح کتابچے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دیسی گائے کا دودھ جرمن (غیر ملکی) گائے سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ یاد رہے اس موقع پر وزیر اعظم مودی نے کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی کو ’جرمن گائے‘ کہا تھا ۔ ادھر سونیا گاندھی کی بہو مانیکا گاندھی نے جو بی جے پی میں شامل ہے مودی اور انتہا پسند ہندووں کو خوش کرنے کیلئے ایک مضمون میں گائے کی شان میںقصیدے گائے ہیں۔
دہلی میں چارہ روزہ قیام کے دوران ایک تعلیم یافتہ مسلمان نوجوان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ان دنوں بھی اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی میں بی جے پی کا بھارت پر راج تھا اور چند ایک ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکوں سے شادی کے واقعات نے ہندو معاشرے میں ارتعاش پیدا کر رکھا تھا۔ مسلمان نوجوان نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندو لڑکی مسلمان لڑکے سے شادی کر لے تو اس پر ہندووں کی جانب سے ناپسندیدگی فطری ردعمل ہے۔ حالانکہ بھارتی آئین میں اسکی مکمل آزادی حاصل ہے۔ اس سوال کے جواب میں ایک ہندو لڑکی اپنے والدین، عزیز رشتہ دار اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان لڑکے سے شادی کیوں کرتی ہے، ا س نے جواب دیا کہ دیکھیں جی، یونیورسٹیوں، کالجوں، سکولوں اور محلوں میں باہمی میل جول ہوتا ہے۔ کسی لمحے ایک دوسرے کیلئے پسندیدگی کے جذبات پید ا ہوجاتے ہیں جو بڑھ کر شدید محبت کا رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پڑھی لکھی لڑکیاں جب اپنے مذہب کا جائزہ لیتی ہیں، ہزاروں ، لاکھوں بتوں کی پوجا، جسمانی ناپاکی اور ایسی مذہبی رسومات انسانی ذہن جن کی معقولیت تسلیم نہیں کرتا پھر وہ اپنے محلے دار یا کلاس فیلو سے اس کے مذہب کے بارے میں جاننا چاہتی ہیں تو وہ اسے فطرت انسانی کے بہت قریب نظر آتا ہے۔ انسانی فطری تقاضوں کی بجاآوری کرتا نظر آتا ہے تو وہ اس سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہتی۔ لیکن اس کا آغاز بہر حال ایک دوسرے کیلئے پسندیدگی سے ہی ہوتا ہے۔ بات سمجھ میں آجائے تو اس یقین میں دیر نہیں لگتی۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
٭…٭…٭