جمعرات‘ 7؍ جمادی الثانی 1442ھ‘ 21؍ جنوری 2021ء
داعش کو ایک ملین ڈالر شام بھیجنے والا طالبعلم گرفتار
ہمارے ہاں ایک سے بڑھ کر ایک نمونہ ہمہ وقت دستیاب رہتا ہے۔ بزعم خود یہ لوگ اپنی مرضی کے خود ساختہ نظریات کو مذہبی عقیدت کا درجہ دے کر دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کیلئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ یوں مسلکی تفریق میں جنونیت کا غالب آ کر فتنہ و فساد پیدا کرتی ہے۔ داعش کے حوالے سے عالم اسلام کے تمام مکاتب فکر ان کی شدت پسندی کو ناپسندیدہ قرار دے کر اس تنظیم کیخلاف ہیں۔ مگر ہر جگہ ان کے سہولت کار محدود تعداد میں آج بھی سرگرم ہیں۔ یہ شدت پسند تنظیم ہے۔ اس کی متشددانہ کارروائیوں کی وجہ سے غیر مسلم اسلام کو شدت پسند دین قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں۔ مگر یوں اسلامی فوبیا کو فروغ ملتا ہے۔ یہی لوگ جو پاکستان کیلئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں کسی رعایت کے منتظر نہیں۔ انکی وجہ سے پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ ملک پر پابندیاں لگتی ہیں مگر یہ انتہا پسند مسخرے ہر چیز کو کھیل سمجھتے ہیں۔ داعش کی وجہ سے عراق ، لیبیا اور شام تباہی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ سوڈان اور نائیجیریا میں قتل و غارت کا کھیل جاری ہے۔ افغانستان میں طالبان اورداعش کاگٹھ جوڑ ختم ہو چکا مگر تعلق برقرار ہے۔ پاکستان میں یہی دو قوتیں بھارت کی حمایت سے جوکچھ کر رہی ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔ ان حالات میں کراچی کا ایک طالب علم بھتہ یا چندہ لے کر ایک ملین ڈالر شام میں داعش کی خواتین کو بھجوا چکا اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ اب اس بے خبری کے ذمہ دار اور بھتہ یا فنڈ بھجوانے میں جمع کرنے میں مدد کرنے والوں کا نیٹ ورک بے نقاب کرنا ہو گا۔ کیونکہ ایک تنہا طالب علم اتنا بڑا نیٹ ورک نہیں چلا سکتا۔ ان سب کو کڑی سزا دینا ہو گی جو پاکستان کی راہ میں مشکلات کھڑ ی کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
شیخ رشید نے بلاول کو اپنا جگر قرار دیدیا
اور کیوں نہ قرار دیتے۔ جس وقت شیخ کے جگر کو اسلام آباد میں ہونا تھا وہ اس وقت عمر کوٹ میں بقول وزیر داخلہ جشن منا رہے تھے۔ یوں لگتا ہے پیپلز پارٹی کی انقلابی مزاحمتی سیاست نے بہت جلد دوبارہ مفاہمتی سیاست کی راہ اختیار کر لی ہے۔ ویسے بھی آصف زرداری کو مفاہمت کا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ نہایت سفاک مسکراہٹ سے کسی کے بھی غبارے سے ہوا نکالنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ پی ڈی ایم کی حالت دیکھ کر لگ رہا ہے۔ لاکھوں کا دعویٰ ہوتا ہے مگر ہزاروں لوگ ہی جمع ہو پاتے ہیں۔ کچھ تو ہے جس کی وجہ سے مزاحمتی ٹرین کو بریکیں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔ ویسے ہی ہمارے ہاں ’’دلہن وہی جو پیا من بھائے‘‘ والا معاملہ عام ہے جو جماعت حکومت ساز طاقتوں کا دل جیتتی ہے۔ انکی منظور نظر بنتی ہے وہی کامیاب رہتی ہے۔ پی ڈی ایم کے شعلہ اگلتے بیانات کے بعد حالات ان کے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں۔ مزاحمت یا انقلاب کا فلسفہ سست الوجود اقوام میں آسانی سے نہیں پنپتا۔ خون جگر سے لے کر خون کے آنسو تک بہانے ہوتے ہیں۔ ہمارے عوام بھی اب چالاک ہو چکے ہیں۔ وہ جب دیکھتے ہیں۔ مشکلات صرف عوام کو سہنا پڑتی ہیں تو وہ بھی متنفر ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جب صبح ناشتے کی باری تھی تو مسلم لیگ (ن) کی ناشتہ گاہ بھری ہوئی تھی۔ مگر جلوس نکالا تو ناشتہ کرنے والوں کی اکثریت غائب تھی۔ شاید سب پارٹیوں کی ناشتہ گاہوں کا یہی عالم تھا۔ جبھی تو الیکشن کمشن کے سامنے لاکھوں کی بات چھوڑیں ہزاروں کا مجمع ہی لگ سکا۔
٭٭٭٭٭
خودار 13 سالہ لڑکے کا سرکاری امداد لینے سے انکار
خودی کا تعلق خود انسان سے ہوتا ہے۔ آدمی یا انسان تو سب ہیں مگر خودار کوئی کوئی ہوتا ہے۔ آخر وہ بھی تو انسان ہی ہیں جو کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں مگر حکومتی امداد ، خیرات ، محتاجوں کو ملنے والی مدد تک کھا جاتے ہیں۔ حساس پروگرام کبھی بینظیر انکم سپورٹ فنڈ میں اپنے ناموں کا یا اپنے بیوی بچوں کا بہن بھائیوں کا اندراج کروا کر کے چند ہزار کی حقیر رقم بھی کھانے سے نہیں چوکتے زکوۃ کی رقم تک نہیں چھوڑتے کیا یہ آدمی یا انسان کہلانے کے حقدار ہیں۔ آفرین ہے کراچی کے پاپوش نگر کے اس 13 سالہ لڑکے عبدالوارث پر جو گھر میں تیار شدہ ڈونٹس پیزا میکرونی اور گلاب جامن فروخت کر کے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کا پیٹ پالتا ہے۔ اس باہمت اور خودار لڑکے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو اسے بیت المال کی طرف سے امداد کی پیشکش ہوئی مگر اس عبدالوارث کا اپنے رب پر قوی ایمان ہے کہ وہی سب کا وارث ہے۔ نہایت احترام سے انکار کر دیا اورکہا کہ وہ اپنے گھر والوں کی کفالت کر سکتا ہے اسے کسی مدد یا خیرات کی ضرورت نہیں۔ شاید یہی وہ بندگان خدا ہیں جن کی وجہ سے بارش برستی ہے۔ رحمتیں اترتی ہیں اور عذاب ٹلتے ہیں ورنہ جہاں غریبوں محتاجوں یتیموں ، مسکینوں کا مال تک کھاتے ہوئے لوگ نہیں شرماتے اگر پتھروں کی بارش بھی ہو تو عجب نہیں…
٭٭٭٭٭٭
سانحہ ساہیوال پر ہٹائے گئے رائے طاہر آئی جی بلوچستان تعینات
خدا جانے بڑے بڑے فیصلے کرنے والے ان فیصلوں کے نتائج سے بے خبر کیوں ہوتے ہیں۔ وہ ان کے بعد میں سامنے والے اثرات کا ادراک کیوں نہیں کرتے۔ اب رائے طاہر کو سانحہ ساہیوال کے حوالے سے پہلے ہی کافی لے دے کا سامنا ہے۔ ان بے گناہوں کے قتل پر جنہیں سرراہ بچوں کے سامنے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اس دلخراش واقعہ کے بعد موصوف کو جو ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی تھے معطل کردیا گیا تھا۔ مگر اب انہیں اس درجہ عالیہ پر فائز کرکے خدا جانے انہیں کن نفلوں کا ثواب دیا گیا ہے حالانکہ اس سے سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے دل غم سے پھٹ رہے ہونگے کیونکہ یہ سانحہ بھولنے والا نہیں۔ جن معصوم بچوں کے سامنے انکے والدین مارے گئے وہ کیا سوچیں گے۔ وہ جو سوچیں گے وہ بعد کی بات ہے اس وقت بلوچستان کے لوگ کیا سوچ رہے ہونگے کہ راندۂ درگاہ افسران کو بلوچستان ہی ترقی دیکر کیوں بھیجا گیا۔ مخالفین تو طرح طرح کے الزامات لگا کر افواہیں پھیلا کر منفی پراپیگنڈہ کرینگے کہ کیا اب بلوچستان والوں کو اندھا دھند مارنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ کم از کم ایسا فیصلہ کرنے والے بلوچستان جیسے حساس صوبے کی سائیکی کو ہی مدنظر رکھیں اور ایسا فیصلہ کرنے سے قبل سوچ لیا کریں تاکہ مخالفانہ پراپیگنڈے سے جان چھوٹ سکے۔
٭٭٭٭٭