آئین کے ہوتے ہوئے ملک بند گلی میں
گوجراںوالہ کے جلسے میں نواز شریف کی تقریر کے بعد جو کھلواڑ شروع ہوا ہے میں نے ابھی تک جان بوجھ کر اس پر قلم نہیں اٹھایا ، مگر اب پانی سر سے گزر گیا ہے کیونکہ ریاست کو چلانے والاا ٓئین بے بس نظر آتا ہے ، ریاست پاکستان کی قسمت سے کھلواڑ اسی دن شروع ہوگیا تھا جب میاں نواز شریف کے خون کی رپورٹیں جعلی بنائی گئیں اور ان کی بنیاد پر میاں نواز شریف ایک بار بھر جیلوں کی سلاخیں توڑ کر بیرون ملک بحفاظت جانے میں کامیاب ہوگئے، یہی کچھ مشرف دور میں ہوا تھا ، اس وقت بھی ریاست پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا ۔
ریاست پاکستان سے بڑھ کر طاقت ور کون ہے ،اس کا اندازہ ہر کسی کو ہے ۔ میں نے کبھی انکشافاتی صحافت نہیں کی، جو کچھ ہوتا ہے یا ہوگا ، اپنی بساط کی حد تک اسی کا تجزیہ کرتا ہوں۔ پاکستان ایٹمی طاقت ضرور ہے لیکن سیاسی اور معاشی حیثیت کے طور پر بے حد نحیف و نزار ۔ ظاہر ہے جو طاقتیں خزانوں کی مالک ہیں وہ پاکستان کے بازو مروڑتی ہیں ، میاں نواز شریف کی گوجرانوالہ کی تقریر کیوں نشر ہوئی اس کا بھی جواب تلاش کرنا مشکل نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست پاکستان کو ڈھیر کرکے کسی کو کیا ملے گا ۔ کیا اسرائیل ان ممالک کا دفاع کر سکتا ہے جو پاکستان کو کمزور کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔ اس سوال کا جواب ہے بالکل نہیں ۔ اور یہی بات بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والی ہماری سیاسی جماعتو ں کو سوچنی چاہئے۔ دنیا کے ہر ملک میں حکومت اور اپوزیشن میں ٹھنی رہتی ہے امریکہ میں بھی نئے اور پرانے صدر کے حامیوں میں جنگ کا منظر پیدا ہوگیا ہے لیکن پاکستان کی اپوزیشن چاہتی ہے کہ وہ ریاست سے چند ایٹم بم چھیننے میں کامیاب ہوجائے اورپاکستان کے سر پر دے مارے۔ یہ سراسر خود کشی کا راستہ ہے۔
ہر ریاست کے چند بنیادی ستون ہوتے ہیں جو باہم ملک جل کر ریاست کو قائم بھی رکھتے ہیں اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن بھی رکھتے ہیں ۔انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ہماری اپوزیشن نے پاکستان کی بنیادوں کو لرزا دیا ہے ۔ عدلیہ انصاف مہیا کرنے کا ایک سہارا ہے ۔بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے پہلا وار ہی عدلیہ پر کیا اور اسے متنازعہ بنا دیا۔ عدلیہ کسی کے حق میں فیصلہ کرے تو زندہ باد اور نہ کرے تو اس پر لعن طعن۔ نیب پر سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں،اسی نیب کو ن لیگ اور پی پی پی نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا، پارلیمان ریاست کی پہلی اور آخری امید ہوتی ہے لیکن ہماری اپوزیشن نے پارلیمان کی عزت خاک میں ملا دی ، پاکستان کی نئی نسل نے پارلیمان کا کوئی ایسا اجلاس نہیں دیکھا ، جس میں اپوزیشن دھینگا مشتی پر نہ اتر آئے ۔ اب تو نوبت یہ آگئی ہے کہ پارلیمان کا اجلاس بلانا ہی ناممکن ہو گیا ہے ،اور اپوزیشن سارے فیصلے سڑکوں، چوکوں اور گلیوں میں کرنا چاہتی ہے ، اپوزیشن نے عدلیہ کو بھی متنازعہ بنا دیا اور پارلیمان کو عضو معطل بنا کر قانون سازی کے تمام راستے بند کردئیے ہیں ۔
ملک میں انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنا بھارت کی پہلی اور آخری کوشش ہے مگر وہ اپنے کل بھوشنوں اور ابھی نندنوں کی فوج ظفر موج کے بل بوتے پر خود تو اپنے اس گھنائونے مشن میںکامیاب نہیں ہوسکا مگر اسے اب کارندے میسر آگئے ہیں جو سیاسی انتشار کو بھی ہوا دے رہے ہیں ، حکومتی استحکام کے لیے بھی خطرہ ہیں اورمعاشی اقدامات کے رستے میں روڑے اٹکا رہے ہیں ۔ اپوزیشن نے شہر شہر اور قصبے قصبے جلسوں، جلوسوں اور ریلوں کی مدد سے عوام سے آزادانہ نقل و حرکت کا وہ حق بھی چھین لیا ہے جس کی ضمانت آئین فراہم کرتا ہے۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اپوزیشن کی بے ہنگام غوغاآرائی کی آڑ میں مافیاز نے سر اٹھا لیا ہے ۔ اور انہوں نے عوا م کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لیا ہے ۔ چینی ،چائے ،آلو ،دودھ،دوا ہر شے کے نرخ آسمان تک پہنچادئیے ہیں ۔ اپوزیشن عوام کے دکھوں پر شیطانی قہقہے لگا رہی ہے اور الٹا اس کا نعرہ یہ ہے کہ اس نے حکومت کو ناکام بنا دیا ہے۔ ہماری اپوزیشن ہمیشہ حکومتوں کو ناکام بنانے میں کامیاب رہی ہے ، نواز شریف اور بے نظیر نے ایک دوسرے کی حکومتیں گرائیں، زرداری اور نواز شریف نے ایک دوسرے کو پٹخنے کی کوشش کی، ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ وہی دو جماعتیں ہیں جنہوں نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر رکھے ہیں، ہماری اپوزیشن کی جمہوریت در اصل خاندانی بادشاہت کا نام ہے، مفتی محمود کے بعد اس کا بیٹا فضل الرحمن، زرداری کی جگہ اس کا بیٹا بلاول اور نواز شریف کی جگہ مریم نوازنے لے لی ہے ۔ اگر یہی جمہوریت ہے تو بادشاہت اور موروثی آمریت کس چڑیا کا نام ہے۔
پھر وہی نواز شریف کی گوجرانوالہ کی تقریر جس نے اپوزیشن کے ہر لیڈر کی زبان کو دراز کردیا ، اپوزیشن کے جلسوں میں جو نعرے لگتے ہیں، انہیں احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں ۔میں سیدھے اور کھرے لفظوں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپوزیشن اب ریاست کے آخری ستون سے ٹکرانا چاہتی ہے ۔ کاش ہمارا میڈیا ذمہ دارانہ کردار ادا کرتا اور اپوزیشن کا الو سیدھا کرنے میں مدد گار ثابت نہ ہوتا ۔ اپوزیشن کا ایجنڈہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اس وقت طے کردیا تھا جب ترکی میں ایک فوجی بغاوت کو ناکام کر دیا گیا تھا۔ نواز اور شہباز دونوں نے یک زبان ہوکر کہا تھا کہ پاکستان میں بھی عوام کی طاقت کے بل بوتے پر جمہوریت کو سر بلند رکھا جائے گا۔عوام کی یہ طاقت اسلام آباد کا رخ کرنے کو ہے اور پھر پنڈی کی طرف مارچ کرنے کی کھلے عام باتیں ہو رہی ہیں۔ پنڈی ریاست پاکستان کے آخری ستون کی علامت ہے۔ دیکھا جائے تو اپوزیشن نے ریاست کا ہر ستون منہدم کر دیا ہے تو خدا ہی جانتا ہے کہ ریاست کو بچانے کے لیے اب کیا امید باقی رہ گئی ہے۔ یہ ہے وہ اندھی اور تاریک گلی جس میں پاکستان بڑی طرح پھنس چکا ہے۔