داعش کا نیا سربراہ یزیدیوں کے خلاف جنگی جرائم کا مرتکب

داعش تنظیم نے ابو ابراہیم الھاشمی القرشی نامی ایک دوسرے جنگجو کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کردیا ہے۔ادھر دہشت گرد تنظیموں کے امور کے ماہر مبصرین نے بھی اس نام پر شبے کا اظہار کیا ہے جب کہ امریکی حکام نے کہاہے کہ یہ نام ہر اعتبار سے غیر معروف ہے۔برطانوی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی انٹیلی جنس اداروں کے ریکارڈ میں الھاشمی اور القرشی نام کا کوئی وجود نہیں ملتا تاہم داعش کے موجودہ خلیفہ کا نام امیرمحمد عبدالرحمان المولیٰ الصلبی سامنے آیا ۔المولیٰ عراق میں ترکمانی اقلیت نسل سے بتایا جاتا ہے، عام طور پرایسا نہیں ہوتا کہ داعش جیسے گروپوں کی قیادت غیرعرب کمانڈروں کو نہیں دی جاتی۔المولیٰ کے بارے میں اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ وہ موصول یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہے۔ سنہ 2014ءمیں داعش نے عراق میں یزیدی اقلیت پرمظالم ڈھائے تو اس کے موجودہ خلیفہ المولیٰ نے مظالم ڈھانے میں دہشت گردوں کی مدد کی۔ اس ے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ 2019ءمیں امریکا نے المولیٰ کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے اس کی گرفتاری میں مدد دینے پر 50 لاکھ ڈالر کی رقم کے انعام کا اعلان کیا۔ یہ اعلان البغدادی کی ہلاکت سے پہلے کیاگیا اور یہ امکان موجود تھاکہ البغدادی کی موت کی صورت میں اسے تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا جا سکتا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق المولیٰ کو حجی عبداللہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور وہ داعش اور القاعدہ کا سابق مذہبی محقق رہ چکا ہے۔ شمال مغربی عراق میں یزیدی اقلیت کے قتل عام میں اس کا گہرا ہاتھ ہے۔ حجی عبداللہ نے یزیدی اقلیت کے مردو خواتین کو اغواءکرنے، انہیں بے رحمی کے ساتھ ذبح کرنے اور انہیں گھر بار سے محروم کرنے کا شرعی جواز فراہم کیا۔