اسرائیل میں چاکلیٹ‘ کینڈی چپس اور اسی ٹائپ کی بے شمار اشیاء خوبصورت پیکنگ میں تیار کر کے دنیا بھر میں فروخت کر کے زرمبادلہ کمانے والا ایک بڑا ملک ہے۔ ہندو اور یہودی مسلمانوں کے دیرینہ اور متعدد دشمن رہے ہیں لیکن ماننا پڑے گا کہ وہ علم و حکمت میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ اسرائیل میں بچوں کو چاکلیٹ‘ کینڈی چپس‘ چیونگم استعمال کرنے نہیں دیا جاتا۔ یہاں تک کہ اسرائیلی بچوں میں موبائل استعمال کرنے کے بھی اوقات مقرر ہیں۔ ہمارے ہاں نودولیتے والدین بچوں کو چاکلیٹ‘ چپس‘ فاسٹ فوڈ پر لگا کے خود کو ماڈرن ثابت کرتے ہیں۔ لوگوں کو دکھاتے ہیں کہ ان کے بچے فاسٹ فوڈ‘ آئس کریم‘ کولا اور چاکلیٹ جیسی مہنگی اشیاء استعمال کرتے ہیں‘ جبکہ وہ خود یہ سب کھلا کر بچوں کو ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج کر رہے ہیں۔ خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں میں موبائل کا بے دریغ استعمال انواع و اقسام کی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ جب اسرائیل میں کسی جوڑے کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو شوہر اپنی بیوی کا ایک ماں کی طرح خیال رکھتا ہے۔ اسے بہترین توانائی والی خوراک کھلاتا ہے۔ ایسی عورت کا بچہ جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند‘ توانا اور خوش مزاج ہوتا ہے۔ ایک اچھی نسل اچھی قوم اور اچھے حکمرانوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ دنیا کے عظیم مفکر دانشور شاعر ادیب ہوتے ہیں۔ ایسے نایاب لوگ بنگلہ دیش‘ بھارت ‘ سعودی عرب‘ افغانستان اور پاکستان جیسے ملکوں میں کیوں پیدا نہیں ہوتے۔ مجھے جلد ہی اس کا جواب بھی مل گیا۔ ناکام ریاستوں میں ہمیشہ نکمی منفی اور متشدد نسلیں کیوں جنم لیتی ہیں۔ افغانستان اور بنگلہ دیش پاکستان کے برادر اسلامی اور ہمسائے ممالک ہونے کے باوجود پاکستان کی جڑیں کھودتے رہے۔ بنگلہ دیش تو پاکستان کا آدھا جسم تھا لیکن جب جدا ہوا تو دشمن ہی بن بیٹھا۔ افغانستان کو پاکستان نے اپنی رگوں سے خون نچوڑ کر پلایا۔ انکے حق میں ناحق جنگیں لڑیں۔ روس سے تعلقات بگاڑے اور اپنے لوگ میدان جنگ میں اتارے۔ لاکھوں پاکستانی روس افغان جنگ میں مارے گئے۔ پھر نائن الیون کا منحوس واقعہ پیش آیا اور پھر اسامہ بن لادن تھا یا ملا عمر دونوں کا پاکستان سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا‘ لیکن ایک بار پھر پاکستان کو افغانستان کی جنگ لڑنا پڑی۔ امریکہ برسوں سے پاکستان کا مائی باپ بنا ہوا ہے۔ لیکن اسکے ساتھ سلوک ’’سوتیلے بچہ‘‘ والا ہے۔ ہمارے اقتدار کے بھوکے حکمران امریکہ کے آگے دوزانو میں ہوتے ہیں۔ اسی لئے آج تک کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ نہیں بن سکا ہے۔ 170دنوں سے کشمیر میں جاری جارحیت کا عمران خان توڑ نہیں نکال سکے۔ محض ہیرو بننے کیلئے ٹویٹ اور خطاب کر کے سب کو جھانسہ دیکر اقتدار کے دن امریکہ سے آگے کراتے رہے ہیں۔ یہ ہوتی ہے ہمارے حکمرانوں کی حب الوطنی۔ اس سے پہلے بھی نواز‘ شہباز‘ زرداری نے موقع پرستی کے کھیل کھیلے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس‘ ابھی نندن‘ عافیہ صدیقی‘ شیخ خالد‘ اجمل قصاب اسی کھیل کے شاخسانے ہیں۔ اگر اقتدار کی ہوس اور موقع پرستی کی حقیقی مثالیں پیش کی جائیں تو ہماری گردنیں شرم سے جھک جائیں۔ ہمارے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو عورت ایک مسلسل کرب اور عذاب سے گزر رہی ہوتی ہے۔ اول تو شادی کے چار دن بعد ہی دلہن سے سال نندیں حسد شروع کر دیتی ہیں اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو شوہر اپنی بیوی کی دلجوئی اور خیال رکھنے کے بجائے بیوی کے بجائے کسی کزن‘ پڑوسن‘ کو لیگ میں دلچسپی لینے لگتا ہے۔ بیوی کو نہ اچھی خوراک ملتی نہ اچھا ماحول۔ ہر وقت طعنے تشیع‘ مارپیٹ‘ جھگڑے فساد اور کام کا بوجھ‘ ہر وقت علیحدگی یا طلاق کا خوف یا رسموں کی مار‘ ہر وقت مطالبے اور فرائض کے ملنے‘ ڈیلیوری کے اخراجات کی ٹینشن۔ ان حالات میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا ذہن پر گندا ہوتا ہے۔ ذہنی و جسمانی صحت لاغر ہوتی ہے۔ ایسے بچے زندگی بھر منفی سوچوں کے حامل اور احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں۔ زندگی میں کامیاب ہونے کیلئے شارٹ کٹ استعمال کرتے ہیں یا پھر کام چور‘ ہڈحرام‘ بدزبان اور بدلحاظ ہوتے ہیں۔ پھر انہی میں سے لوگ حکمران بن جاتے ہیں اور ہمارے سروں پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ ہم میں عدم برداشت سب سے زیادہ ہے۔ کسی کی خوشی ہضم نہیں ہوتی۔ یہ منفیت سارے معاشرے کو کھا رہی ہے۔ کیا یہ خوفناک بات نہیں ہے کہ ایک مزدور جو سارا دن محنت کر کے پانچ سات سو روپے کماتا ہے۔ کیا وہ اپنے گھر کے آٹھ دس افراد کو 75 روپے کلو آتے سے تین وقت روٹی کھلا سکے گا۔ ایک مزدور کی ساری کمائی صرف روٹی پر لگ جائیگی اور سوال یہ ہے کہ روٹی پکانے کیلئے ایندھن کہاں سے آئیگا اور روٹی کس سے سالن مانگ کر کھائی جائیگی۔ جن حکمرانوں نے چھ اور آٹھ لاکھ کی گاڑیاں 20لاکھ کی کر دی ہیں۔ بل آسمانوں پر پہنچا دیئے ہیں۔ پٹرول کو آگ لگا دی ہے۔ ٹیکس لگا لگا کر عوام کی ہڈیوں سے گودا تک نکال لیا ہے۔ یاد رکھیں کہ انکے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ پوری قوم نیب سے سوال کرتی ہے کہ ڈیڑھ سال میں جو کروڑوں ڈالر ریال درہم اور ین آئے ہیں۔ وہ کس نے کھائے ہیں۔ وہ رقم کہاں لگائی گئی ہے۔ شہباز شریف کی بھی لندن میں چیخیں نکل گئی ہیں۔ انہوںنے کہا ہے کہ اصلاحات کے نام پر حماقتوں کا بازار گرم کر رکھا ہے اور موقع پرستوںکے وارے نیارے ہو گئے ہیں لیکن شہباز شریف بھول گئے ہیں کہ انہوں نے بھی پہلے کاروبار کر رکھا تھا جسکے نتیجے میں عوام کو عمران حکومت ملی۔ مجھے حکمرانوں سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ کیا وہ واقعی پاکستانی ہیں؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024