سندھ اور بلوچستان کے بعد پنجاب میں بھی ٹڈی دل حملہ
ٹڈی دل نے سندھ اور بلوچستان کے بعد پنجاب کے کئی شہروں میں بھی فصلوں پر یلغار کر دی ہے جس سے ساہیوال‘ وہاڑی‘ گگو‘ اوکاڑہ‘ پاکپتن‘ عارفوالہ‘ چیچہ وطنی‘ کمیر‘ ہڑپہ سمیت متعدد شہروں میں مکئی‘ چارہ‘ آلو‘ گندم اور دوسری فصلوں کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچا۔
وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان لنگڑیال کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل 30 سال بعد دبارہ متحرک ہوئی ہے جس سے پاکستان ہی نہیں‘ دوسرے 52 ممالک بھی ٹڈی دل کی زد میں آئے ہیں جبکہ مشرقی افریقہ میں تو ٹڈی دل حملہ روزانہ اڑھائی ہزار لوگوں کی خوراک ہڑپ کررہا ہے۔ یقیناً ٹڈی دل سے متاثرہ دیگر ممالک میں بھی اسکے مضمرات سے بچنے کی تدابیر اختیار کی گئی ہوں گی۔ ہمیں تو اپنی فصلوں کو قدرتی آفت جیسی اس ناگہانی آفت سے بچانے کی اس وقت ہی ٹھوس تدابیر اختیار کرلینی چاہئیں تھیں جب یہ سندھ میں وارد ہوئی اور وہاں کھڑی فصلوں کو ملیامیٹ کرتی گئی جبکہ سندھ اور بلوچستان میں تقریباً ایک ماہ تک فصلیں اجاڑنے کا اہتمام کرتی ہوئی ٹڈی دل اب پنجاب میں داخل ہوگئی ہے۔ اگر یہاں بروقت حفاظتی انتظامات کرلئے گئے ہوتے اور ہنگامی بنیادوں پر فصلوں اور کھیتوں پر مطلوبہ سپرے کرالیا گیا ہوتا تو فصلوں کے اس نقصان سے بچا جاسکتا تھا جو ٹڈی دل حملے میں اب تک اٹھایا جاچکا ہے۔ اب بھی متعلقہ شہروں کی انتظامیہ محض فیلڈ ٹیمیں تشکیل دیتی اور فضائی سپرے کیلئے وفاقی محکمہ پلانٹ پروٹیکشن سے بذریعہ خط و کتاب رجوع کرتی نظر آتی ہے جبکہ فوری عملی اقدامات کا ابھی تک فقدان ہے۔ کسان اپنے تئیں ٹڈل دل حملے سے بچنے کیلئے ڈھول بجا کر اسے بھگانے کی روایتی کوششوں میں مگن ہیں جبکہ آج ضرورت جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹڈی دل حملے سے نبردآزما ہونے کی ہے۔ اس وقت ملک میں پہلے ہی گندم اور آٹے کا بحران ہے‘ اگر ٹڈی دل حملے میں گندم کو ہونیوالے نقصانات بڑھ گئے تو آئندہ گندم کے بحران کی کیا نوعیت ہوگی‘ اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس لئے ٹڈی دل حملے سے پیدا ہونیوالی صورتحال کا وزیراعظم کو خود نوٹس لینا چاہیے اور محکمہ زراعت کو اس سے بچائو کیلئے متحرک کرنا چاہیے۔ اس کیلئے جس بھی ٹیکنالوجی اور سپرے کی فوری ضرورت ہے‘ وہ ہنگامی بنیادوں پر فراہم کئے جائیں اور نقدآور اجناس کو ٹڈی دل حملے سے بچایا جائے۔