کل ایک معروف ٹی وی ٹاک شو میں ایک ماہر فلکیات و ارضیات اور ستارہ شناس اپنے حساب کتاب کے ساتھ آئندہ اپریل مئی تک پاکستان میں سیاسی انتشار اور خلفشار کی اندوہناک نقشہ کشی کر رہے تھے۔ ٹاک شو کے میزبان انہیں گھیر گھار کر وزیراعظم عمران خاں کے حال اور مستقبل کا کھوج لگانے کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کرتے مگر ان صاحب کی ستارہ شناسی میں مجموعی افراتفری کے سوا کسی رجائیت پسندی کی جھلک دکھائی نہ دیتی۔ اس ستارہ شناسی میں عمران خاں کا اقتدار تو انہوں نے آئندہ ماہ سے اپریل تک تاریک راہوں میں اُلجھتا، ٹامک ٹوئیاں مارتا دکھا دیا اور پھر اپریل مئی میں نئے انتخابات کا امکان بھی ظاہر کر دیا مگر آگے ملک اور عوام کا مقدر کس کے دستِ قدرت میں آنا ہے۔ اس کی کوئی واضح تصویر دکھانے سے غالباً وہ دانستہ طور پر گریز کرتے رہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں تو انہوں نے فتویٰ جاری کر دیا کہ ان کی پیدائش جس تاریخ کے جس لمحے میں ہوئی ہے وہ ان کے اقتدار والا لمحہ تھا ہی نہیں بلکہ ان کے لئے مشکلات والا لمحہ تھا اس لئے بالفرضِ محال انہیں اقتدار نصیب ہو بھی گیا تو وہ ان کے برے انجام کا باعث بنے گا۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے مستقبل کے حوالے سے ان کی ستارہ شناسی شائد خود ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی اس لئے انہوں نے شریف برادران کے حوالے سے خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھا ، شائد اس ٹاک شو کے میزبان کی اپنی بھی یہی حکمت عملی ہو گی اس لئے انہوں نے پورے ٹاک شو میں بس عمران خاں اور بلاول بھٹو کو ہی فوکس کئے رکھا جبکہ مستقبل کے قیافے لگانے والے ستارہ شناس نے قوم میں مایوسی اور نااُمیدی پھیلانے کے سوا اپنے علم الاعداد کا کوئی مثبت پہلو اجاگر نہ کیا۔
یہ تو معاملہ ہوا محض ٹامک ٹوئیاں مارنے اور ستارہ شناسی کے بل بوتے پر ’’ٹیوے‘‘ لگانے کا مگر صاحبو، ذرا زمینی حقائق پر بھی تو نظر ڈالئے۔ اگست 2018ء سے وسط جنوری 2020ء تک عوام پر جو بیت گئی ہے اور انہوں نے جو کچھ بھگت لیا ہے، کیا وہ کسی ستارہ شناس کے علم الاعداد میں ظاہر ہونے والی افراتفری، اضطراب اور انتہاء درجے کی مایوسی سے کچھ کم ہے یا معاملہ اس سے بھی آگے ہے۔ اگر اس عرصے کے دوران ملک میں اجتماعی مایوسی اور کسی دانشور کے بقول آسیب کے سائے حاوی ہوتے نظر آئے ہیں تو یہ اصحابِ اقتدار کے لئے ہی لمحۂ فکریہ ہونا چاہئے۔ ساغر صدیقی کی درویشی نے تو ایسے حالات کا یہ نتیجہ نکال کر اپنے شعر میں سمو دیا تھا کہ؎
جس شہر میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس شہر کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
حضور یہاں تو سہانے مستقبل کے دام فریب کی اسیر ہونے والی رعایا کے اسباب لٹنے کی اخیر ہو گئی ہے۔ ’’پر اجے قیامت نہیں آئی‘‘۔ ارے نئے پاکستان کا تو آغاز ہی ضمنی میزانیہ لا کر اور ڈالر کو بلند پروازی کے لئے ’’ڈچکر‘‘ مار کر کیا گیا۔ ضمنی میزانیئے میں بڑھائے گئے ٹیکسوں اور روشناس کرائے گئے نئے ٹیکسوں نے خوش فہموںکے رومانٹسزم کو جھنجوڑا اور پھر ڈالر نے جستیں بھرتے ہوئے مہنگائی کے بوتل میں بند جِن کو چھلانگ مار کر عوام کے سامنے دیدہ دلیری کے ساتھ پھنکارے مار کر کھڑا ہونے کی ہلہ شیری دے دی سو مہنگائی نے عام عوام کی عملاً مت مار دی ’’پر اجے قیامت نہیں آئی‘‘۔ اور پھر قیامت آنے کے آثار تب بھی نظر نہ آئے جب بجلی ، گیس ، پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہر پندھرواڑے اور ماہانہ اضافہ کی سابقین کی روایت کو ثابت قدمی کے ساتھ تھام لیا گیا اور کراہتے ، دھاڑیں مارتے عوام کو یہ کچوکے لگانا بھی شعار بنا لیا گیا کہ مہنگائی آگے چل کر مزید بڑھے گی۔ آپ نے گھبرانا نہیں۔
مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق عوام نے صبر کا دامن تھام کر اپنے اچھے مستقبل کی امیدیں ٹوٹنے نہ دیں مگر آئی ایم ایف کے قرضوں اور اس کی تمام شرائط کو سرتسلیم خم کر کے قبول کرنے کے چلن نے مہنگائی کو مہمیز لگائی تو عوام کی زندہ درگوری میں کوئی کسر ہی باقی نہ رہی۔ مگر قیامت تو پھر بھی نہ آئی کہ کرپشن میں لتھڑے سابقین پر قیامت ڈھائی جا رہی تھی جن کی نکلتی چیخوں سے عوام کو مسرور و مسحور کرنے کی کوششیں جاری تھیں۔ جب عوام کی حالت اس معاشرے والی بن گئی جہاں رش سے بچنے کے لیے درے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کی عاجزانہ درخواست کی جاتی ہے تو نئے پاکستان میں چھوٹے موٹے روزگار والوں کو روزگار سے محروم کرنے اور نئے روزگار کے تمام راستے مسدود کرنے کی پالیسی طے ہو گئی۔ ناروا ٹیکسوں نے تاجروں اور کاروباری طبقات کو خوف میں مبتلا کیا تو انہوں نے کاروبار سے ہاتھ کھینچ کر بے روزگاری مزید پھیلا دی۔ بے بس لوگ خودکشیوں اور لوٹ مار کے راستوں پر نکل آئے۔ امن و امان کی فضا پر بھی جن پھر گیا ، ’’پر اجے قیامت نہیں آئی۔‘‘
اس شاہانہ فضا نے عوام ہی نہیں، حکومتی مخالفین کو بھی محض کیڑے مکوڑوں کا درجہ دے دیا جنہیں کچلنا، مسلنا عالم پناہوں کا دل پشوری مشغلہ ہوتا ہے۔ چنانچہ مہنگائی کے عفریت کے ساتھ ساتھ سرد آہیں بھرنے والے عوام اس شاہانہ مشغلے کی زد میں بھی آتے رہے۔ مگر قیامت تو پھر بھی نہیں آئی۔ حتٰی کہ ریاستی اداروں کے ساتھ متھا لگانے کا شوق پورا کرتے ہوئے بھی قیامت کو سرعام دعوت دی جانے لگی مگر قیامت گریز پا ہی رہی۔ اب حالت یہ ہے کہ اب نئے نئے بحرانوں کو سیٹیاں اور ششکارے مار کر دعوت دی جا رہی ہے اور پورے فہم و ادراک کے ساتھ ہر بحران کا سابقین ہی کو ذمہ دار گردانا جا رہا ہے۔ ایسی دیدہ دلیریوں سے مجبور و مقہور عوام ہی زچ نہیں ہوئے ، حکومت کی اپنی صفوں میں بھی ’’شور محشر‘‘ بپا نظر آ رہا ہے۔ حکومتی پارٹی کے ایم این اے سرکاری ملازمتیں سرعام فروخت ہونے کی رہائی دے رہے ہیں اور حکومتی اتحادی وزیر اعظم کے نام پر کرپشن کا کاروبار پھیلائے جانے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ مگر جناب قیامت تو پھر بھی نہیں آئی۔
اب اقتداری خوداعتمادی میں آٹے کا سنگین بحران در آیا ہے۔ 45 روپے کلو والا آٹا 70 روپے کلو تک جا پہنچا ہے۔ لوگ سیر، پائو آٹے کے حصول کی خاطر لمبی قطاریں بنائے کھڑے ہیں۔ سپایا کر رہے ہیں۔ کوس رہے ہیں کہ 29 روپے کلو کے بھائو لاکھوں ٹن گندم برآمد کر کے اب وہی گندم سابقین والی پالیسی ہی کی طرح 80,70 روپے کلو کے حساب سے درآمد ہو گی تو کیا پھر بھی قیامت نہیں آئے گی۔ بابا فرید گنج شکر نے تو روٹی کو دین کا پانچواں رکن قرار دیا ہوا ہے۔؎
فریدا روٹی میری کاٹھ دی تے لاہون میری بھکھ
جہناں کھاہدیاں چوپڑیاں ، گھنے سہن گے دکھ
اور اسی طرح ساحر لدھیانوی نے بھی کُوک ماری تھی کہ…؎
مفلسی حسّ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک اطوار کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی
تو بھائی صاحب، کچھ کر لو۔ زمینی حقائق تیور بدل رہے ہیں، تیوڑیاں ڈال رہے ہیں۔ آخر قیامت کب تک ٹالی جائے گی، ستارہ شناسوں کے قیافوں اور ان کی ٹامک ٹوئیوں پر نہ جائیں، یہ جان رکھیں کہ بھوک ساری قدریں ملیامیٹ کر دیا کرتی ہے۔ جب بھوک کا راج ہو گا تو قیامت کیوں نہیں آئے گی۔ …؎
بھوک بڑھنا ہی بغاوت کا سبب ہے آسی
یہ روائت میری سرکار نہ ڈالی جائے
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024