’’ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘، یہ اساسی جملہ بھی قرآن کریم کے اسلوب کی پیروی ہے۔ قرآن کریم میں بار بار اس طرح خطاب کیا جاتا ہے، ’’جب تم دیکھو گے‘‘ اور سورہ تکاثر میں تو ایک جگہ ’’لترون الجحیم, ثم لترونھا عین الیقین‘‘ کا انداز اپنایاگیا۔
’’ارضِ خدا کے کعبے سے سب بت اٹھوائے جائیں گے‘‘ نے تو بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایوانوں میں گویا بھونچال برپا کر دیا ہے۔ نکتہ داں آج یہ بھی کہنے پر آمادہ ہیں کہ فیض کا یہ کلام ہند کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوکر کر قرآن کا پیغام پھیلانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ مزاحمت کے میدان میں امید کشید کرنی ہو تو یہ کلام شاید سب انقلابیوں کی میراث ٹھہرے۔ ’’راج کرے گی خلقِ خدا‘‘ بھی انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنے کا ہی تو پیغام ہے۔آج پورے بھارت میں آسام بھیونڈی سے لے پنجاب تک فیض کی نظم ایک انقلابی نغمہ، انقلابیوں کا ترانہ (revolutionary anthem)بن چکا ہے۔ مذھب اور زبان کی باریکیوں سے بالاتر جذبے کا ایک آتش فشاں ہے جس نے حکومت اور آر ایس ایس کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ نظم کی مخالفت، اس کے حق اور تشریح پر انڈیا میں لاکھوں پیغام زیرگردش ہیں۔ فیض گزشتہ کل ہی کے بڑے شاعر نہ تھے، وہ آج بھی پورے قد کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں سلگتے سگریٹ گہرے خواب اور راز لئے آنکھوں سے فیض کا خطاب، فیض کا فیض آج بھی جاری ہے۔
زندگی بھر ان کی دو حسرتیں رہیں، جن کا بار بار انہوں نے اعادہ بھی کیا۔ ان میں اول یہ تھی کہ وہ قرآن کریم حفظ نہیں کرسکے، گوکہ پانچ چھے پارے انہیں حفظ تھے اور دوم کرکٹر نہ بن پانا تھی۔ اس کے سوا زندگی بھر کسی چیز کی انہیں ذاتی زندگی میں حسرت نہ رہی۔انتقال سے ڈیڑھ برس قبل پروفیسر سلیم منصور خالد نے سید بادشاہ، مولانا مودودی رح کے حوالے سے ان کا انٹر ویو کیا جو معاصر جنگ میں شائع ہوا سوال پوچھا کہ ’’آپ نے سید بادشاہ کی کون کون سی کتاب پڑھی ہے؟‘‘، کہنے لگے ’’بھائی! ہم نے تفھیمات سے لے کر تفھیم القرآن تک، مولانا کی تمام کتابیں پڑھی ہیں۔‘‘حلقہ زنجیر کو بھی زباں بنالینے والے فیض کے مداحین کم نہیں لیکن جس طرح علامہ اقبال کے کلام کا رنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا چلاجارہا ہے، نقش خیال مزید نکھر کر ذہنوں میں جگہ پارہا ہے، ان کے احساس کی چاندنی ہر ذہن تک اجالا لے جارہی ہے، زبانیں اور ہجوم فرق ہیں، ملک اور معاشرے فرق ہیں لیکن آزادی فکر واظہار کی پیاسی زبانوں پر ترانہ فیض کا ہے۔ ایسا صرف اسی صورت ہوسکتا ہے جب کلام سچا ہو اور لکھنے والے کا دل پاک ہو۔
زمانے کے رنگ نرالے ہیں۔ ہر دور میں جنہیں راندہ درگاہ گردانا گیا، وقت نے انہیں نایاب ثابت کیا۔ شاید پیغام سمجھنے میں ہمیں زمانے لگتے ہیں، ہمیں بادلوں کی طرح اڑتے خیالوں کو چھو لینے کا موقع ہی میسر نہیں آتا، سیاسی دھماچوکڑی، چور چور کے شور شرابے میں یہ سب گم ہوتاجارہا ہے۔ پھر وقت کی آندھی ان خیالات کو پھر سے ذہنوں میں تازہ کردیتی ہے۔
فیض احمد فیض کا کلام ایک تازیانہ بن کر موذی فسطائیت اور آمریت پر برس رہا ہے اور اس کا ایک ایک لفظ انگاروں میں لپٹے کوڑے کی طرح بی جے پی اور آر ایس ایس کی کھال ادھیڑ کر رکھ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تکلیف اور کرب کی آواز پوری دنیامیں پھیل رہی ہے۔ فیض کے کلام کو روکنے کی مشق شروع ہوگئی ہے۔ یہ موذی کی ہار اور آزاد سوچ کی جیت ہے۔ جیسے سنگین، محاصرہ اور جبر مقبوضہ جموں وکشمیر کے رہنے والے دلیروں کو کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگانے سے نہیں روک سکا، ویسے ہی بھارت کے اندر فیض کا کلام موذی کی آمریت کا بت پاش پاش کررہا ہے۔
ترقی پسند اور انسان دوست نظریات کے حامل فیض احمد فیض کی یہ نظم بھارت میں مظاہرین کا قومی ترانہ بن چکی ہے اقبال بانو کی آواز میں دوام حاصل کرنے والی یہ نظم کسے یاد نہیں۔
ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے!
دہائیوں پہلے اس انقلابی کلام نے سننے والوں کو سحرزدہ کرکے رکھ دیا تھا، اس کی گونج سرحد پار بھی سنائی دی تھی اور آج پھر ظلم، ناانصافی اور جبر کے خلاف بھارت میں اسی کلام کے ذریعے ظالم مودی کو للکارا گیا تو اسے ہندو مخالف قرار دے کر تحقیق شروع کر دی گئی ہے۔کانپور کی آئی آئی ٹی یونیورسٹی میں طلبا نے سب سے پہلے یہ نظم پڑھی جس پر ایک استاد نے کہا ہے کہ فیض کا یہ کلام ہندو مذہب کی مخالفت کرتا ہے۔ اس شکایت کاب نوٹس لے کر جامعہ نے ایک پینل تشکیل دے دیا جو اس بات کا تعین کرے گا کہ واقعی نظم سے ہندو مذہب کو کوئی خطرہ ہے یا نہیں۔فیض کی نظم کے یہ دو مصرعے بعض طلبا اور جامعہ کے اراکین کے لیے تکلیف اور تشویش کا باعث تھے لیکن یہ نظم شہریت کے کالے قانون کے خلاف سڑکوں پر مارچ کرتے لاکھوں کروڑوں مظاہرین کا قومی ترانہ بن چکی ہے جس سے سارا ہندوستان گونج رہا ہے۔
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے،
بس نام رہے گا اللہ کا
آئیے ہم بھی اس ترانے کو گنگنائیں اور پاکستانی نام نہاد ترقی پسند منہ چھپا رہے ہیں کہ مودی انہیں عزیز ہے ڈالروں سے انہیں پیار ہے۔
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اْڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ، دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ، کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
………………… (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38