سابق بھارتی کرکٹر اور سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو نے کرتارپور راہداری کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی کو خط لکھ دیا، جس میں راہداری پر جاری کام کے حوالے سے تجاویز دی گئی ہیں۔اپنے خط میں سدھو کا کہنا تھا کہ اس علاقے اور مقام سے دنیا بھر کے سکھوں کی گہری جذباتی وابستگی ہے اور بابا گرو نانک کی ساڑھے 5 سو سالہ تقریبات کے موقع پر دنیا بھر سے سکھ یہاں آنا چاہیں گے، لہذا گوردوارہ کی تاریخی اور مذہبی اہمیت کے پیش نظر سہولیات کی فراہمی کے کام پر نظرثانی کی جائے۔خط میں تجویز دی گئی ہے کہ بزرگوں اور معذوروں کے علاوہ دیگر عمومی آمد و رفت پیدل رکھی جائے۔سدھو نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ یاتریوں کی سہولت کے لیے وہاں کھانے پینے اور خریداری کے اسٹالز کی بجائے روایتی جگہیں بنائی جائیں۔مزید کہا گیا کہ نئے تعمیراتی کام میں کرتارپور کی روایتی ثقافتی تاریخ کو محفوظ رکھنے پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نظام کو کم سے کم متاثر ہونے کو بھی یقینی بنایا جائے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ برس 28 نومبر کو کرتارپور راہداری کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب میں بھارت کی نمائندگی وزیر خوراک ہرسمرت کور اور وزیر تعمیرات ہردیپ سنگھ نے کی تھی، جبکہ سابق بھارتی کرکٹر و سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔تقریب سے خطاب کے دوران سدھو نے وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب بھی کرتارپور راہداری کی تاریخ لکھی جائے گی تو اس کے ساتھ عمران خان کا نام ضرور لکھا جائے گا۔نوجوت سنگھ سدھو نے مزید کہا تھا کہ پاکستان نے سرحد کھول کر پوری کائنات ہماری جھولی میں ڈال دی ہے۔کرتارپور راہداری منصوبہ پاکستان، گوردوارہ صاحب سے سرحد تک اپنی حدود میں کرتارپور کوریڈور فیز ون میں ساڑھے 4 کلو میٹر سڑک تعمیر کرے گا، اسی طرح بھارت بھی اپنی حدود میں سرحد تک راہداری بنائے گا۔منصوبہ مکمل ہونے پر یاتریوں کو کرتارپور کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں پڑے گی تاہم اس حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان حتمی بات چیت ہونا باقی ہے۔پہلے مرحلے میں دریائے راوی پر 800 میٹر پل، پارکنگ ایریا، سیلاب سے بچاو¿ کے لیے فلڈ پروٹیکشن بند اور گوردوارہ کمپلیکس کی تعمیرنو کی جائے گی جب کہ گوردوارہ دربار صاحب میں بارڈر ٹرمینل کی تعمیر بھی منصوبے کا حصہ ہے۔دوسرے مرحلے میں گوردوارہ دربار صاحب میں اضافی رہائش کی تعمیر ہوگی، یاتریوں کو ویزہ فری انٹری، بس سروس، میڈیکل کی سہولت، ٹک شاپ، فلاور شاپ، کیفے ٹیریا اور لائبریری کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع نارووال میں دریائے راوی کے کنارے ایک بستی ہے جسے کرتارپور کہا جاتا ہے، یہ وہ بستی ہے جسے بابا گرونانک نے 1521ئ میں بسایا اور یہ گاو¿ں پاک بھارت سرحد سے صرف تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ نارووال شکر گڑھ روڈ سے کچے راستے پر اتریں تو گوردوارہ کرتار پور کا سفید گنبد نظر آنے لگتا ہے، یہ گوردوارہ مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ بہادر نے 1921 سے 1929 کے درمیان تعمیر کروایا تھا۔گرو نانک مہاراج نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہیں بسر کیے اور ا±ن کی سمادھی اور قبر بھی یہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کرتارپور سکھوں کے لیے مقدس مقام ہے۔بھارت سے آنے والے سکھ یاتریوں کو کرتارپور تک پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً 130 کلومیٹر کا سفر طے کرکے نارووال پہنچنا پڑتا تھا جب کہ بھارتی حدود سے کرتارپور 3 سے 4 کلو میٹر دوری پر ہے۔ہندوستان کی تقسیم کے وقت گوردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا، دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گوردوارہ بند رہا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024