یقینا ہمارے سیکیورٹی ادارے سی ٹی ڈی ( محکمہ انسداد دہشت گردی ) سے غلطی ہوئی ہے… اس کا دفاع کرنا اس سے بھی بڑی غلطی ہے… اس خاندان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے… اُن بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے جن کے غم کا مداوا کوئی نہیں کر سکتا… اُن بچوں سے آج ہر کوئی ’سوال‘ کر رہا ہے… ان بچوں نے آج تک اتنے اجنبی چہرے نہیں دیکھے… گزشتہ رات انہیں نیند نہیں آئی ہوگی… یا شاید نیند آئی بھی ہوگی تو چند گھنٹوں کی… اور پھر وہ ذہن میں گولیوں کی تڑ تڑ سے جاگ گئے ہوں گے… وہ اپنے ماں باپ کی چیخ و پکار سے خود چیختے ہوئے اُٹھ گئے ہوں گے… اُن کے آنسو ختم ہو چکے ہوں گے… وہ کبھی مسلسل اتنی دیر تک نہیں جاگے ہوں گے… چھوٹی چھوٹی بہنوں کو تو بھائی کا کچھ پتہ نہیں… کافی دیر سے نظر نہیں آیا ہوگا… کبھی اتنی تیزی سے منظر بدلتے نہیں دیکھا ہوگا… کبھی اتنے کیمرے نہیں دیکھے ہوں گے… کبھی اتنے سوالات کا سامنا نہیں کیاہوگا… اب نیند کیسے آئے گی؟آنکھیں بھاری ہیں مگر پھر اچانک شور شرابا انہیں جگا دیتا ہے… بہت سی گاڑیوں کے ہوٹر… انہیں سونے نہیں دے رہے… جہاں بھائی داخل ہے وہاں وارڈ میں لوگ بھاگ رہے ہیں…کوئی آ رہا ہے کوئی جا رہا ہے… بھائی کی نیند پھر اڑ گئی ہوگی …اور نہ جانے یہ صدمہ کب بھلایا جاسکے گا۔ میرے خیال میں اسے بھلانا ناممکن ہوگا کیوں بقول شاعر
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
سوال یہ ہے کہ اگر اس گاڑی میں پاکستان کا مطلوب ترین دہشت گرد، تحریک طالبان کا سربراہ بھی جا رہا ہوتا تو کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے ارد گرد موجود ننھے بچوں کی وجہ سے اس پر فائرنگ کرنے کا حق رکھتے تھے؟ کیا ان بچوں کی جان کا تحفظ ان کی پہلی ذمہ داری نہیں تھی؟ یا پھر تین برس کی ننھی بچی بھی ایسی خوفناک دہشت گرد ہے کہ اسے دیکھتے ہی گولی مارنی لازم ہے؟قطعاََ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ میری ذاتی طور پر اس حوالے سے ایک سینئر پولیس آفیسر سے بات ہوئی جنہوں نے 2008ء میں انڈونیشیا میںCTDپر تین ہفتے کا کورس کیا ہوا ہے، جہاںاُن کی تربیت آسٹریلیا اور انگلینڈ کے تربیت یافتہ عملے نے کی ۔اُن کے مطابق اس واقعہ میں تمام بنیادی نکات کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اور چونکہ اس ادارے کی فلاسفی پچھلی حکومتوں سے اگلی حکومت میں منتقل ہوئی ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کی تربیت اور ’’مائنڈسیٹ ‘‘ کو بدلا جانا چاہیے۔ اور اس جیسے واقعات ہمیشہ فورسز کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں ناکہ اُن کے لیے نیک نامی کا عنصر تصور کیے جاتے ہیں۔ اور آخر میں اُن کا کہنا تھا کہ ان فورسز کی ذمہ داری دہشت گردوں کو ہر حال میں پکڑنا ہوتا ہے ناکہ انہیں مارنا… میں اُن کی تمام باتوں سے مکمل طور پر متفق ہوں اور یقینا اس میں دوسری کوئی رائے بھی نہیں ہونی چاہیے۔ اور گزشتہ حکومت نے اگر سانحہ ماڈل میں ذمہ داری سے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا ہوتا تو یقینا ساہیوال جیسا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ اور میرے نزدیک یہ سانحہ دو وجہ سے سانحہ ماڈل سے بھی زیادہ اہم ترین ہے ،ایک تو یہ کہ معصوم بچوں کے سامنے اُن کے ماں باپ اور بہن کو مار دیا گیا، دوسرا یہ کہ اگر مقتولین مجرم بھی ہوتے تو اُن کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اور شاید کبھی ہمیں تاریخ معاف نہیں کرے گی کہ یہ واقعہ ہمارے دور میں ہوا ہے۔ کیوں کہ اس واقعہ نے حکومت کو شرمندہ کر دیا ۔
ادارے تحقیقات کر رہے ہیں، اُمید واثق ہے کہ عوام انصاف ہوتا دیکھیں گے، جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد ہی اصل صورتحال واضح ہوگی کہ سی ٹی ڈی حکام کے بیانات میں کس قدر سچائی ہے، فی الحال تو عوام اُن کے کسی موقف کو ماننے سے انکاری ہیں۔ کیوں کہ یہ ہماری ’’پولیس روایات‘‘ بن چکی ہیں کہ مجرم جیل یا تھانے میں ہلاک ہو جاتے ہیں ان میں سے 90 فیصد کو یا تو دل کا دورہ پڑتا ہے یا پھر وہ دوسری منزل سے کود کر خودکشی کر لیتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ کئی ملزم پولیس کی نگرانی سے فرار ہوتے ہوئے جب مارے جاتے ہیں تو ان کے ہاتھ ایک ہی ہتھکڑی سے بندھے ہوتے ہیں۔ شاید انہی بندھے ہاتھوں سے وہ پولیس کا اسلحہ چھین کر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوتے ہیں مگر پولیس والوں کو معجزانہ طور پر خراش تک نہیں آتی۔اس طرح کی وارد اتو ں سے ہوتا یہ ہے کہ متعلقہ اداروں کی اچھی اور پیشہ ورانہ کارکردگی پر بھی گرد پڑ جاتی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ان اداروں کے بغیر گزارہ بھی نہیں۔ جب گزارہ نہیں تو پھر ایسی اصلاحات اور ڈھانچے کی تشکیل سے کیوں مجرمانہ غفلت برتی جا رہی ہے جن کے نتیجے میں تحقیق، تدارک اور خود احتسابی کے عمل کو جدید کر کے ایسے واقعات کا تناسب کم سے کم کیا جا سکے؟
اور رہی بات سانحہ ساہیوال کی تو یہ واقعہ ماڈل ٹائون اور رائو انوار کیس سے مختلف اس لیے ہوگا کیوں کہ اس میں سیاسی مداخلت نہیں ہوگی اور پولیس پر شفاف تحقیقات کرنے کے خلاف کوئی دبائو بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے اُمید یہی ہے کہ مجرموں کو سزا بھی ملے گی اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام بھی ہوگی اور یہ بات بھی جے آئی ٹی کی رپورٹ سے ہی واضح ہوگی کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے پاس کونسی خفیہ اطلاعات تھیں جن کی بنیاد پر انہوں نے فائرنگ کردی ۔ اس کے بعد پولیس ریفارمز کے حوالے سے حکومت پنجاب سنجیدگی سے اقدامات کرے گی اور اس قسم کی تربیت کے لیے بھی قدم اُٹھائے گی۔ کیوں کہ سابقہ حکومتوں نے جس طرح سے ذاتی مفادات کے لیے ہماری پولیس فورسز کو استعمال کیا ، اُس سے ان فورسز میں عوام الناس سے نمٹنے کی تربیت بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ پولیس کے ساتھ ہم نے اپنے رویوں پر بھی غور کرنا ہے کہ ہم بذات خود اس سسٹم کو ٹھیک کرنے کے حوالے سے کس قدر کارگر ثابت ہورہے ہیں۔
ہم نے خود کو ٹھیک کرنا ہے، اس کا آغاز جلد ہوگا، یہی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ لہٰذا میرے نزدیک اس کیس کے حوالے سے ہمیں آخری حد تک جانا چاہیے۔ اور دنیا کا کوئی قانون ایسا نہیں ہے جو کسی مجرم کوبھی آپ گولی نہیں مار سکتے۔ مجرم کو گرفتار کرنے کا حکم ہے، تاریخ میں پاکستان کی آرمی نے بھی بہت سے آپریشن کیے مگر لیکن ہمیشہ لوگوں کو گرفتار کیا۔ سی ٹی ڈی کے ذمہ دار اہلکار، اُن کے سربراہ اور جن جن لوگوں نے حکم دیا، سب کو کیفر کردار تک پہنچانا بہت ضروری ہے۔ حکومت کے ذمہ داران کو یہ سوچنا ہوگا کہ یہ واقعہ کیوں ہوا؟ 12گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ایف آئی آر درج نہ کی گئی، اور اس واقعہ کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ساہیوال پہنچنا واقعی قابل تحسین ہے مگر انہیں اس حوالے سے کسی کے حکم کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ فوری وہاں پہنچا چاہیے تھا، اسی طرح آئی جی پنجاب کا بھی کئی گھنٹوں کے بعد وقوعہ کا دورہ بھی یقینا غفلت کی علامت ہے۔
بہرکیف اس سانحے کا ایک آدھ ہفتے بعد شور دب نہیں جانا چاہیے ، بلکہ آخری حد تک جانا چاہیے۔ کیوں کہ سابقہ حکومتوں میں یہی ہوتا رہا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں مرنے والے پہلے والوں کی طرح صرف ہندسے بن کے رہ جاتے تھے اور قاتل معطل یا جبری ریٹائر ہو جاتے رہے۔ تحقیقاتی رپورٹ ضرور مرتب ہوتی، مگر تحقیق ہونا اور حقائق سامنے لانا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ورنہ خاکم بدہن کچھ عرصے بعد مجھ جیسے ایک بار پھر ایسی ہی کسی اور واردات کا مرثیہ کہہ رہے ہوں ۔لہٰذایہ ظلم کرنے والوں میں سے جو قصور وار ثابت ہوں، ان کے خلاف مقدمہ ویسے ہی تیز رفتاری سے چلایا جائے جس تیزی سے قصور کی زینب کے قاتل کے خلاف چلایا گیا تھا اور جلد از جلد سزا دی جائے۔ اور جو افسران اس وقت مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے اپنے ظالم اہلکاروں کے ساتھ کھڑے انہیں بچانے کی کوشش کر رہے تھے، ان کا بھی کچھ کیا جائے۔اور یقینا اس مائنڈ سیٹ کو سرے سے ہی ختم کیا جائے تاکہ اس وطن عزیز کے شہریوں کو عدم تحفظ کا احساس نہ ہو!!!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024