افغان مسئلہ کا حل صرف مذاکرات‘ امریکہ پائیدار امن کا قیام یقینی بنائے
طالبان کا حکومت کو مذاکرات سے دور رکھنے پر اصرار‘ پاکستان اور امریکہ کی قائل کرنے کی کوشش
پاکستان اور امریکہ کی طرف سے طالبان کو افغان حکومت سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مذاکرات کیلئے قائل کرنے کے سلسلے میں کوششیں جاری ہیں اور امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اسلام آباد میں قیام بڑھا دیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے سینئر عہدیداروں نے بتایا کہ طالبان امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار جبکہ افغان حکومت کو دور رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ ہم تمام پارٹیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے کوشاں ہیں ہم نے افغان حکومت سے بھی کہا ہے کہ طالبان کو مذاکرات پر لانے کیلئے اثر ورسوخ استعمال کرے۔ طالبان پر ہمارا اثر کم ہے‘ امریکی مطالبات کی منظوری کیلئے ہم انہیں مجبور نہیں کر سکتے۔ دریں اثناء طالبان نے اسلام آباد میں زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی اور براہ راست افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے پھر انکار کیا ہے۔ سینئر طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان سمیت علاقائی طاقتوں نے انکے ساتھ رابطہ کیا اور ہم نے مذاکرات کیلئے ان کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا جب تک افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی، قیدیوں کے تبادلے اور طالبان کی نقل و حرکت پر پابندی ختم کرنے کے حوالے سے یقین دہانی نہیں کرائی جاتی مذاکرات نہیں کرینگے۔
افغانستان میں امن کی بحالی کی امید پیدا ہوئی ہے۔ افغانستان میں پائیدار امن کے قیام میں طالبان اور امریکہ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ جب تک یہ فریقین مذاکرات کیلئے دو انتہائوں پر تھے‘ امن کی بحالی کا امکان مظر نہیں آتا تھا۔ امریکہ اور اسکی کٹھ پتلی افغان انتظامیہ طالبان کے ساتھ مذاکرات سے صریحاً انکار کرتی رہی۔ امریکہ اپنے چالیس سے زائد نیٹو ممالک کے ساتھ طالبان کے مکمل خاتمے کیلئے آخری حد تک گیا مگر 17 سال میں سوائے طالبان حکومت کے خاتمے کے کوئی کامیابی نہ ملی۔ طالبان حکومت کا خاتمہ کرکے اکثر علاقوں پر قبضہ کرلیا گیا مگر یہ تسلط عارضی ثابت ہوا۔ تھوڑے عرصے بعد طالبان اکثر علاقوں پر قابض ہوگئے۔ حکومتی رٹ سکڑتی سمٹتی کابل تک محدود ہوگئی۔ کابل میں بھی امریکہ کے سائے میں قائم افغان حکومت کا مکمل کنٹرول نہیں۔ حکومت دہشت گردی کے بدترین واقعات روکنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ طاقت کا استعمال افغانستان میں بے سود ثابت ہوا۔ ایک عرصہ
امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات سے انکاری رہا۔ امریکہ اسکے اتحادیوں اور افغان انتظامیہ کا افغانستان سے غیرمشروط سرنڈر کا مطالبہ تھا‘ ایسے مطالبات فاتح‘ شکست خوردہ دشمن سے کرتے ہیں جو بے بسی کی تصویر بنے ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر امریکہ افغانستان میں اپنی کامیابی کا دعویدار ہے تو طالبان سے شرائط منوا سکتا ہے۔ امریکہ اپنے درجنوں اتحادیوں سمیت جدید ترین اسلحہ‘ تربیت یافتہ افواج‘ مہلک اسلحہ اور ظلم کا ہر حربہ آزمانے کے باوجود طالبان کو سرنگوں نہیں کر سکا‘ یہی زمینی حقیقت ہے۔ دوسری طرف طالبان بھی جارح فورسز کے ساتھ مذاکرات کیلئے آمادہ نہیں تھے۔ وہ افغان مسئلے کا حل غیرملکی قوتوں کے انخلاء کو قرار دیتے رہے ہیں۔ دونوں کو پاکستان کی طرف سے لچک پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی جس میں کافی حد تک کامیابی ملی جس کا اعتراف امریکہ اور افغان انتظامیہ کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ زلمے خلیل زاد کے دورہ پاکستان سے افغان امن عمل میں مزیدپیشرفت ہوتی نظر آرہی ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے وزیراعظم عمران خان کو ٹیلیفون کرکے افغانستان میں امن مذاکرات اور مفاہمت کیلئے حالیہ کوششوں کو سراہتے ہوئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی طرف سے کوشش کے ضمن میں پاکستان کی پرخلوص انداز میں سہولت فراہم کرنے کی ستائش کی۔
پاکستان مشترکہ ذمہ داری سمجھتے ہوئے امن عمل کے ذریعے افغانستان کے تنازع کے مذاکرات کے ذریعہ حل کیلئے پرخلوص کاوش کررہا ہے۔ خطے میں امن کے استحکام کیلئے افغانستان کا پرامن ہونا ضروری ہے۔ امن کی خواہش کا اظہار تو افغان انتظامیہ اور امریکہ سمیت سب کی طرف سے کیا جاتا ہے مگر امن کے حصول کیلئے عرصہ سے حقائق کو نظرانداز کی جاتا رہا۔ پاکستان کے اصرار اور تلخ لہجے میں بات کرنے سے امریکہ حقیقت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوا ‘اب طاقت کے استعمال کے بجائے معاملات بات چیت کے ذریعے حل کو کلید سمجھ رہا ہے۔ پاکستان نے طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات پر زور دیا جس سے صورتحال بہتر ہوتی نظر آئی۔ افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے اپنے دورے کے دوران پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے ساتھ دفترخارجہ میں وفد کی سطح پر افغان امن عمل کے حوالے سے مذاکرات کئے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ سے بھی زلمے خلیل زاد اور ریزو لوٹ سپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل آسٹن سکاٹ ملر کی قیادت میں امریکی وفد نے ملاقات کی جس میں علاقائی سلامتی صورتحال‘ افغان امن اور مفاہمتی عمل کے امور زیرغور آئے۔ امریکی وفد نے امن عمل کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔ تہمینہ جنجوعہ کے ساتھ ملاقات میں بھی زلمے نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی تھی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کیلئے اہمیت کا حامل ہے ‘ انہوں نے خطے میں امن و سلامتی کیلئے کوششیںجاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔ ملاقاتوں میں زلمے نے افغانوں کے آپس میں مذاکرات پر زور دیا۔
افغانوںکے مابین مذاکرات ضرور ہونے چاہئیں‘ تاہم افغان مسئلہ کا حل امریکہ اور طالبان قیادت کے مابین براہ راست مذاکرات ہی میں ہے کیونکہ امریکہ افغانستان حوالے سے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان نے متحدہ عرب امارات میں امریکہ اور طالبان رہنمائوں کو مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا تھا جس سے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے مثبت پیشرفت ہوئی۔ معاملات درست سمت جارہے تھے کہ امریکہ نے طالبان سے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مطالبہ کردیا جس سے بدمزگی ہوئی۔ طالبان افغان انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار نہیں۔ انکے خیال میں افغان حکمران اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے مذاکرات میں مخلص نہیں ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں ہونیوالے مذاکرات کے دوران امریکہ کی طرف سے طالبان کو عبوری حکومت میں شامل ہونے کی پیشکش کی گئی جس پر افغان حکمرانوں کی طرف سے منفی ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ اسکے ساتھ ہی اگلے روز اپریشن میں کئی طالبان کو ہلاک کردیا گیا۔ گزشتہ روز بھی ننگرہار اور کئی علاقوں میں اپریشنز میں 60 طالبان مارے گئے۔ یہ اپریشن افغان حکومت کے احکامات پرہورہے ہیں۔ ایسی کارروائیاں مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرسکتی ہیں جبکہ فریقین کی طرف سے اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔
بادی النظر میں پاکستان کا طالبان پر خاص اثر نہیں ہے تاہم رابطے ضرور ہیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لابٹھایا۔ اب معاملات امریکہ کو ہینڈل کرنے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ فیصلہ سازی پر قادر ہے۔وہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے تو نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں۔ فریقین عبوری حکومت کے قیام پر متفق ہوتے ہیں تو معاملات طے کرنے کیلئے طالبان کی سیکنڈ لائن لیڈر شپ کی کمیٹی افغان حکمرانوں سے بات چیت پر آمادہ ہوسکتی ہے۔
طالبان کی طرف سے پیش کردہ نئے مطالبات کو سردست امریکہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں مگر کبھی دونوں فریق دو انتہائوں پر تھے پھر کشیدگی کی برف پگھلی اور ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہاتھ ملانے پر آمادہ ہوگئے۔ سلسلہ جنبانی ہر صورت جاری رہنا چاہیے۔ مذاکرات سے راستے بند نہیں‘کھلے رکھنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ امریکہ جب انخلاء کیلئے تیار ہے تو ٹائم فریم دینے میں حرج نہیں۔ قیدیوں کا پہلے بھی تبادلہ ہوچکا ہے۔ اعتماد سازی اور خیرسگالی کیلئے طالبان رہنمائوں کیخلاف سفری پابندیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔
امریکہ خاص طور پر صدر ٹرمپ افغانستان سے جلد جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ امریکہ انخلاء سے قبل افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کو یقینی بنائے۔ افغان حکمرانوں کے اقتدار کے طوطے کی جان امریکی فوجوں کی افغانستان میں موجودگی میں ہے۔ امریکہ نے ماضی کی طرح افغانستان کو اسکے حال پر چھوڑ کر رختِ سفر باندھا تو افغان سرزمین ایک بار پھر خون سے رنگین نظر آئیگی۔