المیہ ساہیوال: جے آئی ٹی رپورٹ کا انتظار کیا جائے
لاہور ساہیوال روڈ پر قادر آباد کے قریب سی ٹی ڈی پولیس کی فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے چارافراد جاں بحق ہو گئے۔ فیملی بوریوالہ شادی پر جا رہی تھی۔ جاں بحق ہونے والوں میں کریانہ فروش خلیل (42 ) اُس کی بیوی نبیلہ (38 ) اُس کی بیٹی اریبہ (13 ) اور دوست ذیشان جاوید جو کار چلارہا تھا شامل ہیں۔ بتایا جاتاہے کہ جب خلیل کی ہلاکت کی خبر اُس کی والدہ کو ملی تو وہ بھی صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔ لواحقین اور مشتعل عوام نے کئی گھنٹے تک لاہور فیروزپور روڈ بند رکھی جس سے جنوبی لاہور جام ہو گیا۔ اس فائرنگ کے حوالے سے پولیس کا مئوقف یہ ہے کہ مرنیوالوں کا تعلق دہشت گردوں سے تھا ، جنہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے بیٹے کے اغوا میں سہولت کارکا کردار اداکیا تھا اور پولیس کو مطلوب تھے۔
اس افسوسناک واقعے نے حکومت ہی نہیں ملک بھر کوہلا کررکھ دیا ہے۔اصلیت کیا ہے، بچ جانے والے بچے اور دیگر شواہد کچھ کہہ رہے ہیں اور پولیس کچھ! بہرحال وفاقی اورپنجاب حکومت نے جس تیزی کے ساتھ اس المیے پر تحرک اور فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ سانحہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے اعلیٰ سطحی جے آئی ٹی بناکر تین دن میں رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔ پولیس کے بدلتے بیانات معاملے کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ لوگ یہ ماننے کو تیار نہیںکہ دو دہشت گرد کم سن بچوں اور نوعمر بیٹی اور اُن کی ماں کو لے کر سفر کررہے تھے۔ بالفرض فرار بھی ہو رہے تھے تو گاڑی کا منزل تک پیچھا کیا جا سکتا تھا یا گاڑی کے آگے گاڑی لگا کر اُسے روکا جا سکتا تھا یا کسی اگلے ناکے پر گاڑی رکوا کر تلاشی لی جا سکتی تھی۔ اگر کار سوار واقعی مشکوک تھے تو زندہ پکڑے جا سکتے تھے۔ اس المیے پر وزیراعظم کی افسردگی ‘یتیم بچوں کی دیکھ بھال حکومت کے کرنے کا اعلان اور وزیراعلیٰ کا جائے سانحہ پر فوراً پہنچ جانا، یہ سب لواحقین کے دُکھوں کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔ ایسے افسوسناک واقعات پرسیاست چمکانا اورحکومت کومطعون کرنا تب تک صحیح نہیں ہو گا جب تک جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے نہیں آ جاتی۔ افواہوں اور داستانوں اور کہانیوں کی بنیاد پر رائے قائم کرنا عقل مندی نہیں ۔ حکومت کی اب تک کی کارروائی ظاہر کرتی ہے کہ ملزموں کو نہ ریلیف دیا جائے گا اور نہ کوئی رعایت بلکہ اُنہیں عبرتناک سزائیں دی جائیں گی۔