پیر ‘ 14؍ جمادی الاوّل 1440 ھ ‘ 21 ؍ جنوری 2019ء
میاں نوازشریف نے جیل میں ٹی وی لینے سے انکار کر دیا
سابق وزیراعظم کو جیل میں دی گئی سہولتوں میں سے ایک سہولت یہ بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے کمرے میں ٹی وی بھی رکھ سکتے ہیں۔ عام طورپر اس درجہ کے قیدی اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ نہیں تو چلو کم از کم گانے سن لیتے ہیں‘ ڈاکومنٹری فلمیں دیکھ لیتے ہیں اور کچھ نہیں تو ڈرامے دیکھ کر ہی ٹائم پاس کر لیتے ہیں۔ گرچہ اس وقت پاکستانی ڈراموں میں وہ پہلے والی بات نہیں مگر پھر بھی گزارے لائق ہیں۔کم از کم وقت گزر جاتا ہے۔ تنہائی میں ہنسنے اور رونے کے نت نئے مواقع نکل آتے ہیں۔ دل کا غبار اتر جاتا ہے مگر ہمارے میاں صاحب نے ٹی وی لینے سے صاف انکار کر دیا۔ اب اتنی بھی بے مروتی اچھی نہیں ہوتی۔ رکھ لیتے ٹی وی اپنے کمرے میں۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ اس ٹی وی پر صرف سرکاری میڈیا چینل ہی چلتے ہیں جن میں صرف حکومت کی مدح سرائی ہوتی ہے۔ یہ بیماری تو روزاول سے ہی سرکاری میڈیا کو لاحق ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا خود میاں صاحب اپنے تین حکومتی ادوار میں اس کا علاج کر لیا ہوتا تو آج سرکاری میڈیا بھی آزاد ہوتا اور میاں صاحب اس کے پروگرام دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے۔ خیر ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔‘‘ ہماری جیلوں میں مناسب معاوضے پر جیب ڈھیلی کرنے پر تمام غیرملکی چینلز بھی بااثر قیدیوں کو دکھائے جاتے ہیں۔ میاں جی بھی ذرا گرہ ڈھیلی کریں پھر دیکھیں انہیں من پسند چینلز بھی دیکھنے کو مل جائیں گے۔ ہر کام جہاں ہوتا ہو‘ وہاں کسی کام کے نہ ہونے کا رونا زیب نہیں دیتا۔ بس ذرا ’’مینوں نوٹ دکھا میرا موڈ بنے‘‘ والے فلسفے پر عمل کرنا پڑتا ہے۔
٭٭…٭٭…٭٭
بھارت میں مودی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا بڑا مظاہرہ
اس مظاہرے سے ہونا تو یہ چاہئے کہ مودی جیسے کند ذہن انتہاپسند کو عقل آجائے مگر وہ الٹا اس مظاہرے کو روایتی آمروں کی طرح بھارت مخالف مظاہرہ قرار دے رہا ہے۔ ہر انتہاپسند آمر‘ عوام دشمن‘ جمہوریت مخالف حکمران کی طرح مودی بھی اپنی ذات کو ریاست کا درجہ دیکر مقدس گائے بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مودی جوکچھ کر رہے ہیں اس کا انجام کیا ہوتا ہے سب جانتے ہیں۔ یہی مقدس گائے بعد میں عوام کے جوتوں یا ووٹوں کے تلے کچلی جاتی ہے اور اس کا قیمہ کر دیا جاتا ہے۔ 5 ریاستوں میں الیکشن ہارنے کے بعد بھی اس متعصب شخص کی ذہنیت نہیں بدلی۔ اب بھارت میں الیکشن زیادہ دور نہیں ہیں۔ جلدہی لگتا ہے پورے بھارت میں مودی سرکار کا بولورام ہونے والا ہے۔ اپوزیشن کے اس مظاہرے میں لاکھوں افراد شریک تھے جو ان کے اتحاد اور مودی کے خلاف مشترکہ آواز بننے کی علامت ہے۔ اب اگر یہ متحد رہے اور الیکشن سے پہلے بھان متی کا کنبہ نہ بنے تو ان کی جیت ہوسکتی ہے مگر دوسری طرف انتہاپسند جنونی اور متعصب ہندو توا کے پیروکار بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ روپ بہروپ بدل بدل کر کبھی مسلمانوں سے گلے ملیں گے‘ دلتوں کو پرنام کریں گے‘ سکھوں کو واہ گرو اور عیسائیوں کو ہائے ہیلو بول کر رام کرنے کی کوشش ضرور کریںگے۔ اس لئے بھارتی نچلی ذات کے ہندو اور دوسری اقلیتیں اگر مودی جی کے اس نرت بھائو میں نہیں آئیں تو فائدہ میں رہیں گی۔
لاہور عجائب گھرسے شیطانی مجسمہ ہٹا دیا گیا
پہلے تو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اس شیطانی مجسمہ کو یہاں اس طرح کھلے عام مال روڈ کی طرف نصب کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اگرکسی شیطانی دماغ میں ایسا مجسمہ نصب کرنے کا خیال آیا ہی تھا تو کسی تاریک نیم وا دریچوںوالی راہداری میں اسے نصب کرتے تاکہ اس کی خباثت پوری طرح دل و دماغ پر آشکار ہوتی اور کوئی عقل سلیم رکھنے والے اس طرف جاتے ہی نہیں۔ ہاں البتہ شیطان کو دیکھنے کے شائقین حضرات کی بڑی تعداد ضرور اس طرف کا رخ کرتی اور اپنے اندر کے شیطان کی عکاسی کرنے والے اس مجسمہ کو دیکھتی۔ بطور فن اس مجسمہ میں کوئی عیب نہیں۔ سنگتراش جو چاہے بنا لیں مگر یہ عجیب وحشت کا شکار نظر آتا تھا۔ اس کی ہیئت یہود کے دجال منتظر سے ملتی جلتی تھی۔ اس پر بھلا مسلمانوں نے کب چپ رہنا تھا۔ صرف یہی بات اس مجسمہ کومتنازعہ بنانے کیلئے کافی تھی۔ اب جس طرح اسے کپڑے سے ڈھانپ کر پک اپ میں لٹا کر وہاں سے ہٹایا گیا‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان جہاں بھی جائے گا ذلت اور خواری اس کا مقدر بنے گی اور اسی طرح وہاں سے نکالا جائے گا …؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
اب یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنے اندر کے شیطان کو اس طرح نہیں نکالتے بلکہ اس کی پرورش کرتے ہیں۔ اسے پالتے پوستے ہیں جبکہ اسے ذلیل و رسوا کرتے اپنے اندرسے نکالنے کی ضرورت ہمیں زیادہ ہے۔
٭٭…٭٭…٭٭
حکومت صابن کی ٹکیہ پر کھڑی ہے‘ کسی بھی وقت پھسل سکتی ہے: سراج الحق
کیا بات کہی ہے سراج صاحب نے ایک زاہد خشک مزاج کے منہ سے بھی کبھی کبھی ایسی ایسی پھلجھڑیاں چھوٹتی ہیں کہ سننے والے کی روح تک سرشار ہو جاتی ہے۔ جے یو آئی میں مولانا فضل الرحمن کے پاس ایسے کئی رتن موجود ہیں جو ان کی پارٹی کی طرف سے کارزار سیاست کو اپنی شگفتہ بیانی سے کشت زعفران بناتے رہتے ہیں۔ باقی سیاسی جماعتوں میں بھی ایسے نادرالوجود نگینوں کی کمی نہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک لاجواب کردار موجود ہیں۔ جماعت اسلامی کے اندر کسی حد تک سنجیدگی کا غلبہ رہتا ہے۔ اس لئے وہاں موجود لوگ ہنستے ہوئے بھی لگتا ہے زبردستی مسکرا رہے ہیں۔ خواص کہلانے کے شوق میں یہ عوام الناس سے ذرا بچ بچا کر رہتے ہیں۔ یہ تو قاضی حسین احمد مرحوم نے اسے صالحین کی صحبت سے زبردستی نکال کر عوام کے پہلومیں جگہ دلوائی۔ سراج الحق کا یہ بیان بھی اس عوامی رنگ کی ایک کڑی ہے جو اب جماعت میں سرایت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ موصوف نے کمال مہارت سے اپنے سابق حلیف کو رعایت دیتے ہوئے ان کا نام نہیں لیا ورنہ حکومت کی جگہ وہ ان کا نام ہی لے لیتے تو مطلب وہی نکلتا جو اب نکلتا ہے مگر بس مزا بڑھ جاتا۔ ویسے سراج الحق صاحب نے یہ کہاں دیکھ لیا کیسے دیکھ لیا کہ حکومت صابن کی ٹکیا پر کھڑی ہے۔ یہ تو بذات خود ایک دلچسپ حالت ہوتی ہے۔ بندہ کیسے کیسے ایکشن میں نظر آتا ہے پھسلتے ہوئے اور کیسی آوازیں نکلتی ہیں۔ ویسے ہی جیسے اس وقت حکومتی وزراء کی نکل رہی ہیں۔ خدا کرے کہ نہ سمجھے کوئی۔ لگتا ہے غسل خانے کے دروازے سے کان لگائے جماعت والے بھی حکومت کے دھڑام سے گرنے کی آواز سننے کی تمنا میں جمع ہیں۔
٭٭…٭٭…٭٭