وزیراعظم عمران خان کی انفرادیت اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے مدینہ منورہ کی زمین پر ننگے پائوں اترنا اپنے لئے سعادت سمجھا۔
دوسری انفرادیت ان کا اس پاک سرزمین کو ریاست مدینہ میں تبدیل کرنے کی خواہش کا اظہار تھا۔
جنرل ضیاء الحق بظاہر تو طالع آزما اور آمر مطلق تھے لیکن جذبہ اسلام سے سرشار بھی تھے۔ اسلامی یعنی بلاسود بینکاری کو انہوں نے متعارف کرایا تھا۔ ریاست مدینہ ایک ماڈل کا نام ہے جس میں ہر قیمت پر اور بلا لحاظ حدود اللہ کی پابندی کی جاتی ہے۔ احتساب کا عمل رکنے نہیں پاتا‘ کسی کے ذہن میںکوئی این آر او نہیں آتا‘ ریاست مدینہ میں مذہبی عقائد اور مسالک شطرنج کے خانوں کی طرح دکھائی نہیں دیتے۔ مساجد مسالک کے ناموں سے موسوم نہیں کی جاتیں۔ دین کی آسانیاں دکھائی دیتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر قانون کی حکمرانی کو ہر شہری بلا چوں و چرا تسلیم کرتا ہے۔ شخصی مفادات کی خاطر آئینی ترامیم نہیں کی جاتیں۔
سعودی عرب اس لحاظ سے ایک ماڈل ہے۔ ریاست مدینہ پہلی اینٹ رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ارض پاک کے کونے کونے کو صاف ستھرا کر دیا جائے۔ گھروں کے اندر تو صفائی ہوتی ہے لیکن گلیاں بازار سڑکیں صفائی کر ترستے ہیں۔ کیا ہمارے پاس سرکاری اداروں اور ورکروں کی کمی ہے جو صفائی کے ذمہ دار ہیںپھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے شہروں میں کوڑے کے ڈھیروں کا ہی رونا رویا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی ہر سڑک ہر گلی میں خاکروب رات دن ڈیوٹی پر مامور دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کسی بھی حالت میں ڈیوٹی میں پہلو تہی نہیں کرسکتے۔ ہمارے ہاں ایسا کرنے میں کون سی رکاوٹ حائل ہے ؟؟؟
نئے پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ ہم کلین پاکستان کا نعرہ لگائیں۔ گھروں‘ دفتروں‘ دکانوں کے آگے کوڑے کے ڈھیر لگانے والوں پر ہیلمٹ نہ پہننے والوں کی طرح جرمانے کئے جائیں۔ خاکروبوں اور ان کے نگرانوں سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔ فرائض سے کوئی بھی غفلت کا مرتکب ہو اسے گھر کا راستہ دکھایا جائے۔ سرکاری ملازمت کا ہمارے ہاں یہی مطلب لیا جاتا ہے کہ اب کسی کا باپ بھی سرکاری ملازم کو نوکری سے نہیں ہٹا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ سزا جواب طلبی شوکاز یا معطلی ہوتی ہے۔ پھر وہ اسی طرح دندنانے لگتا ہے ۔ پولیس بھی اسی لئے ٹھیک نہیں ہو پاتی کہ ہر تھانیدار اپنی تمام تر حدود کو پامال کرنے کے باوجود محض معطلی کا سامنا کرتا اور پھر کچھ عرصے بعد سفارشوں کے بل پر بحالی کے بعد اپنی آئی پر آ جاتا ہے۔ سعودی عرب میں ایک عام سپاہی جسے شرطہ کہا جاتا ہے۔ ملکی و غیر ملکی دونوں ہی اس سے لرزہ براندام رہتے ہیں۔
شرطے کی گرفت میں کوئی آ جائے تو جیسے اس کی جان ہی نکل جاتی ہے۔ شرطے حرمینشریفین میں نظم و ضبط کا نظام کس احسن طریقے سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ نماز سے پہلے اور بعد کسی بھی جگہ لاکھوں افراد کی موجودگی کبھی کوئی بھگدڑ بدنظمی دکھائی نہیں دی۔ ڈسپلن کا یہ عالم ہے کہ کوئی امام صاحب سے مصافحہ کرنے کی بھی جرات نہیں کر سکتا۔ آن واحد میں جگہ خالی کرا لی جاتی ہے۔ پاکستان کلین کرنے کی ذمہ داری صرف سرکاری اداروں اور عمال ہی کی نہیں اسے وزیراعظم ان کے وزراء اراکین اسمبلی بیوروکریسی سیاسی ورکرز سول سوسائٹی سبھی کو ادا کرنا ہوگا۔ انجمن تاجران بازاروں میں تجاوزات پر آنکھیں بند رکھتی ہیں تو صفائی بھی ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہوتی۔ کلین پاکستان ہی لوگوں کے اذہان میں تبدیلی کا موجب ثابت ہوگا۔ اس کے بعد گرین پاکستان کا مرحلہ آئے گاکہ پاکستان ہر گلیاں بازار سڑکیں ہریالی سے لبریز دکھائی دے سکتی ہیں۔ اربوں درخت لگانے کا ہدف اسی طرح پورا ہوگا۔ تیسرے مرحلے میں پڑھا لکھا پاکستان کا نعرہ لگایا جائے۔ پاکستان کا ہر ان پڑھ موبائل سے کھیلنا تو جانتا ہے لیکن پڑھنے لکھنے سے دور قرآن پاک سے ناآشنائی تو لاریب ہے۔ معمولی ملازمت کیلئے بھی خواندہ ہونے کی شرط پر عملدرآمد سے پڑھا لکھا پاکستان وجود میں آئے گا۔ جب پٹرول لینے کیلئے بھی ہیلمٹ پہننے کی شرط عائد ہو سکتی ہے۔ تو ڈرائیورنگ لائسنس کیلئے بھی خواندہ ہونا ضروری قرار دیا جا سکتا ہے۔ نئے پاکستان کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں جو اب تک نہیں ہو سکا وہ اب ہونا شروع ہو۔ مساجد کو نمازوں کے بعد تالے نہ ڈالے جائیں۔ انہیں خواندگی کا مرکز بنایا جائے۔ مساجد کو مکتب کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اسی طرح محکمہ اوقاف مزارات سے چندہ جمع کرنے کے ساتھ ان پاکیزہ جگہوں کو تعلیم دینے کیلئے استعمال کرے تاکہ زائرین کی دینی معاملات میں آنکھیں کھولی جا سکیں۔ غیر شرعی افعال سے باز رکھا جا سکے۔ بلدیاتی اداروں اور میئروں سے پوچھا جائے کہ ان کی کارکردگی کیا ہے۔ ان کے فرائض اور دائرہ اختیار کیا ہے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر نے تجاوزات کے خلاف بھرپور آپریشن کے ذریعے بدنامی کے ساتھ نیک نامی بھی کمائی۔
سعودی حکومت سے گزارش ہے کہ حرمین شریفین کے گرد و نواح میں شفا خانوں کا جال بچھا دیں۔ جہاں زائرین آسانی سے اور بلا معاوضہ اپنا چیک اپ کروا سکیں اور ادویات لے سکیں۔ اس لئے بھی کہ سعودی حکومت نے اُنہیں ’’ضیوف الرحمن‘‘ (اللہ کے مہمان) کا درجہ دے رکھاہے! سعودی حکومت کی زائرین اور حجاج کرام کیلئے خدمات بے مثال ہیں۔
اگر کعبتہ اللہ کے چاروں اطراف چھوٹے چھوٹے شفا خانے بنا دیئے جائیں تو خادم حرمین شریفین کیلئے لاکھوں زائرین دعا گو اور شکر گزار رہیں گے۔ پاکستان سے ہر سال کثیر تعداد میں زائرین سعودی عرب جاتے ہیں وہ چاہیں تو اپنے مشاہدات پر مبنی باتوں سے اپنے ملک میں تبدیلی لانے کی سعی کر سکتے ہیں۔ پاکستانی خواتین زائرین کا ایک لباس میں ہونا ضروری ہے۔ اشیائے خوارک کا ملاوٹ سے پاک اور صاف ستھرا ہونا پاکستان میں بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ سخت سزائوں کا خوف ہی عوام دشمن عناصر کی سرکوبی کر سکتا ہے۔ کیا جلسوں ریلیوں دھرنوں جلوسوں احتجاجوں کو جمہوریت کا حسن سمجھا جائے۔ بادشاہت اور مطلق العنانیت میں ڈسپلن ضرور ہوتاہے۔ سعودی عرب میں ینگ ڈاکٹرز کو ہڑتال کی جرأت کیوں نہیں ہوتی۔؟ کیا جمہوریت ڈسپلن کی نفی کرتی اور احتجاج پر اکساتی ہے ؟ اراکین اسمبلی جمہوریت کے پہیہے تو ہیں اپنے اپنے حلقہ نیابت میں یہ نظام میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تبدیلی لانے کی سعی کیوں نہیں کرتے؟؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024