اسلام آباد ایک بار پھر مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔ افغان امن کی راہیں اور منزلیں اس کے گلی کوچوں اور سبزہ زاروں میں تلاش کی جارہی ہیں۔ بے چین اور مضطرب زلمے خلیل زاد کی بے قراری کو قرار آگیا ہے۔ وہ واشنگٹن جانے کی بجائے اسلام آباد میں خیمہ زن ہو چکے ہیں۔ انکے قیام میں توسیع کردی گئی ہے۔ امریکی سفارت کاری دائروں میں سفر کر رہی ہے کہ 18 برس اور اربوں کھربوں ڈالر جھونکنے کے باوجود امریکہ کے ہاتھ’’ ککھ’’ نہیں آیا اور جو امریکی فوجی بے مقصد جنگ لڑتے ہوئے افغانستان کے اجنبی کوہساروں میں مارے گئے‘ وہ ایک الگ قومی المیہ بن چکا ہے۔
افغان طالبان کے مطابق افغانستان میں طالبان کی حکومت کے وزیر مذہبی امور حافظ محب اللہ کو پشاور سے حراست میں لے لیا ہے۔ وہ مذاکرات میں معاونت کریں گے۔ پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے مجوزہ مذاکرات میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے نمائندے بطور مبصر‘ خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں گے۔ طالبان‘ قیدیوں کا تبادلہ اور تاوان جنگ کی ادائیگی کیساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی قرار داد کی منسوخی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ متکبر امریکیوں کا جاہ و جلال ایک بار پھر اسلام آباد کی خاک چاٹ رہا ہے ان کے جارحانہ لہجے پھر مؤدب آہ و زاری میں بدل چکے ہیں ٹرمپ کے امریکی امداد بارے دعوے دم توڑ چکے ہیں۔ افغانستان میں ’’پائیدارآزادی‘‘ کے نام پر امریکہ نے جو آپریشن 2001ء میں کیا تھا، وہ اب تک ’’پائیدار تباہی وبربادی‘‘ کے طورپر پوری کامیابی سے جاری ہے۔ افغان دھرتی پر لہو کی ارزانی جاری ہے۔ اب اٹھارہ سال بعد امریکہ بھی اسی کھونٹے تک پہنچا ہے جہاں کبھی روس پہنچا تھا۔ سال ہا سال کی رعونت، گولہ بارود، اسلحہ، جدید ٹیکنالوجی، سوئی سے لے کر جدید وائرلیس اور رات کو دکھائی دینے والے آلات سے مزین وردی پہنے فوجیوں کی موجودگی سے آنکھوں میں جو امریکی عسکری قوت کی مے کا خمار رفتہ رفتہ اْتر رہا ہے۔ اب امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کی جلدی ہے۔ ’’بھاری پگڑیوں، گھنی داڑیوں اور لمبی قبائوں میں ملبوس طالبان سے منت زاری جاری ہے کہ وہ مان جائیں‘‘، لیکن وہ کٹھ پتلیوں سے بات کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہی اصل ایجنڈے سے پیچھے ہٹنے کو کسی بھی طورپر آمادہ ہیں۔ اعصاب کا امتحان حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ بڑے بڑے گراں مایہ سفارتکار، عسکری ماہرین اور حکمت کار اس بھاری پتھر کو چوم کر ایک طرف رکھ چکے ہیں۔ تازہ شاہ سوار زلمے خلیل زاد کو میدان میں اتارا گیا کہ انہیں جارج واکر بْش، باراک اباما سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ تک ہر امریکی انتظامیہ میں خصوصی پزیرائی میسر رہی اور یہ کہ وہ خود بھی کہیں اور نہیں افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہیں کابل میں پڑھتے رہے ہیں۔ اس لئے ان کی موجودگی، مہارت اور اس مسئلہ کو پیدا کرنے والے شہہ دماغوں میں سے ایک ہونے کی حیثیت سے، وہی اس گرہ کو کھلوائیں، کیونکہ یہ گرہ لگانے والوں میں وہ خود بھی شامل تھے۔ اب ایک کے بعد ایک پینترے بدلے جارہے ہیں۔ قطر میں دفتر کھولنے سے لے کر دوبئی میں مذاکرات کا انعقاد، طالبان رہنمائوں کے عالمی اور متعلقہ ممالک کی مرتب کردہ سیاہ فہرستوں سے ناموں کا اخراج، سعودی عرب، پاکستان اور دیگر علاقائی طاقتوں کی امن عمل میں شمولیت تک ہمیں طالبان کا پلہ بھاری دکھائی دیتا ہے۔
ایک طرف امریکی شکوہ و سطوت ہے تو دوسری جانب ٹرمپ ایسا امریکی صدر ہے جو فی الفور افغانستان کا مستقبل گلے پڑے ہوئے اربوں ڈالر کے خرچ سے جان چھڑانے کے لئے ہاتھ پائوں رگڑ رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ اس لئے بے چین و بے تاب ہے کہ کسی غیر ضروری تاخیرکی صورت میں صدر ٹرمپ یکطرفہ طورپر افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کا اعلان کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں افغانستان اور خطے میں کئی سنگین مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ یہ خدشہ بھی ہے کہ اتحادی افواج کے اچانک چلے جانے سے ایک نئی جنگ کی راہ ہموار ہوجائے گی اور افغانستان کے اندر نئی خونریزی اور طوائف الملوکی روکنا ناممکن ہوگا۔
جس ’’قاعدے‘‘ کو امریکہ ختم کرنے آیا تھا، آج وہی قاعدہ اس کے ہاتھ میں ہے۔ چالیس ممالک کے اتحاد نے جو کھیل شروع کیاتھا، وہ اب کمزور سی سمجھی جانے والی اس قوت کے ہاتھوں عاجز آچکے ہیں۔ ہر گزرتا دن ان کے لئے خرچ کی ایسی مستقل سیاہ کان ہے، جس میں ڈالر مسلسل گررہے ہیں‘ لیکن اس سے برآمد کچھ نہیں ہوتا۔
یہ بھی کہاجاتا ہے کہ معدنیات کے جس لالچ میں امریکی انتظامیہ یہاں ٹھہری تھی، وہ بھی ’’انگورکھٹے‘‘ ہیں کے مصداق ثابت ہوا ہے اور ان سب عوامل میں جو قوت ان کو مسلسل چین نہیں لینے دے رہی‘ اس کا نام افغان طالبان ہے۔ حال میں اس وقت بہت غلغلہ مچا تھا جب وزیراعظم عمران خان نے ایک دن اچانک صحافیوں سے ہونے والی ملاقات میں یہ انکشاف کیا کہ انہیں امریکی صدر ٹرمپ نے خط لکھ کر افغانستان میں امن عمل کے لئے مدد کی درخواست کی ہے۔ اس خط کی آمد تھی کہ ایک طرف نومولود پاکستانی حکومت نے فتح کے ڈونگرے برسانے شروع کردیئے۔ اپنی اہمیت کا قصیدہ شروع کردیا اور اس کے ساتھ ہی افغان مسئلے کی نزاکتوں، گہرائی اور اثرات کو ذہن میں رکھے بغیر ایسے ایسے بلندوبانگ دعوے، تجزیئے اور امکانات کھوجے جانے لگے کہ جس نے توقعات کو بہت زیادہ کردیا اور اس سارے عمل میں زمینی حقائق کی سنگینیوں، پرپیچ راستوں، مذاکرات کاروں کی رسائی کی حد اور تجاویز ومطالبات کے قابل عمل ہونے کی سچائیوں کو فراموش کردیاگیا یا پھر وقتی جوش وخروش کے دھوم دھڑکے میں بھْلا دیاگیا۔ اب اچانک مذاکرات کی آنکھ پھر سے کھْل گئی ہے جب یہ خبریں وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں کسی تیز آندھی کی طرح چلنے لگی ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کا عمل پھر سے رْک گیا ہے۔ اس گرما گرم خبر نے اسلام آباد سے واشنگٹن، بیجنگ، یو اے ای، قطر، ماسکو سب جگہ گھنٹیاں بجادی ہیں کہ ’’امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اسلام آباد میں اپنے قیام میں توسیع کردی ہے کہ انہیں طالبان سے مذاکرات کی آس امید پیدا ہوئی ہے۔ مذاکرات میں رکاوٹ کی بنیادی وجہ افغان کٹھ پتلی انتظامیہ سے طالبان کا بات چیت سے انکارہے۔ افغانستان میں برسراقتدار انتظامیہ کو مذاکرات کے عمل میں شامل کرنے سے پہلے بھی طالبان صاف انکار کرچکے ہیں۔ انہیں افغانستان میں حکمرانی کرنے والے لوگوں کے بارے میں کوئی خوش فہمی یا غلط فہمی نہیں۔ زلمے خلیل زاد تاخیر سے پاکستان آئے اور اب ان کی روانگی بھی تاخیر کا شکار ہوچکی ہے کیونکہ یہ خبر گرم تھی کہ اسلام آباد میں زلمے خلیل زاد کی پاکستانی حکام اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتوں کے پس منظر میں طالبان سے اسلام آباد میں ملاقات متوقع ہے۔ دوسری جانب سینئر طالبان رہنمائو ں کا کہنا ہے کہ علاقائی طاقتیں چاہتی ہیں کہ طالبان امریکی سفارتکار سے اسلام آباد میں ہی ملاقات کریں۔ طالبان نے یہ دونوں خواہشات مسترد کردی ہیں۔ جس کا اعلان باضابطہ طورپر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کیا ہے۔ جس کے بعد یکایک امیدوں پر گھڑوں پانی پڑگیا ہے۔ طالبان نے زلمے خلیل زاد پر الزام عائد کیا ہے کہ ’’انہوں نے طے شدہ ایجنڈے سے انحراف کیا ہے اور یہ کہ واضح نہیں کہ اب دوبارہ مذاکرات کب ہوں گے ؟‘ شرائط پوری کرنے کے قابل نہیں۔‘‘ امریکی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ’’جو بھی مذاکرات ہوں گے وہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ افغان حکومت کے ساتھ ہوں گے‘‘جسے طالبان تسلیم نہیں کرتے اور اسے ایک بے بس اور کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہیں۔ ایک طالبان رہنما کا کہنا ہے کہ امریکہ سے مذاکرات کا آغاز ان شرائط پر ہوسکتا ہے۔ ان میں سرفہرست امریکہ کا افغانستان سے انخلاء ہے۔ دوسرا قیدیوں کا تبادلہ کے ساتھ ساتھ طالبان نے مذاکرات سے پہلے مزیدسخت شرائط عائد کر دی ہیں۔ طالبان کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارداد واپس لی جائے؟ طالبان رہنماوں پر عائد تمام سفری پابندیاں ختم کی جائیں، اتحادی افواج کے مرحلہ وار انخلا کا نظامِ اوقات دیا جائے۔ مذاکرات سے پہلے 18 برس میں ہوئے نقصان کے لئے امریکہ تاوان جنگ کا تعین کرکے ادا کرنے کا اعلان کرے۔ زلمے خلیل زاد کا ان مذاکرات اور افغان قضیہ کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں خطے کا یہ پانچواں دورہ ہے۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ تازہ صورتحال کے پیش نظر زلمے خلیل زاد نے پاکستان میں اپنا قیام بڑھادیا ہے۔ امریکی ایلچی نے امریکہ جانا تھا‘ لیکن اب ان کا پروگرام تبدیل کردیاگیا ہے۔
افغانستان میں جنگ کو اٹھارہ سال ہوچکے ہیں۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکہ نے حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کردی تھی۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ مذاکرات ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے۔ یہ کوئی عام معاملہ نہیں جو ایک یا دو ملاقاتوں میں طے ہو پائے۔ یہ ایک نازک مسئلہ ہے جسے احتیاط سے طے کرنا ہوگا۔ پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کے بعد زلمے خلیل زاد نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’’میں ٹھوس پیش رفت کا منتظر ہوں۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ ’’مجھے پاکستانی حکام نے افغانستان میں امن عمل کے لئے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔‘‘ حالیہ دنوں میں زلمے خلیل زاد کی طالبان سے تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ان میں سے مذاکرات کا آخری دور دسمبر میں دبئی میں ہواتھا جس میں پاکستان اور سعودی عرب کے حکام بھی شریک ہوئے تھے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’’زلمے خلیل زاد اور طالبان رہنمائوں کے درمیان اسلام آباد میں ملاقات کی افواہیں صداقت پر مبنی نہیں۔‘‘
افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل طالبان اس وقت تک مذاکرات پر آمادہ نہیں ہونگے۔ جب تک افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا نظامِ اوقات سامنے نہیں آجاتا۔ پاکستان اپنا اثرورسوخ استعمال کررہا ہے‘ لیکن اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔ پاکستان میں سابق افغان سفیر عمرزخیلوال کے مطابق امن کوششوں میں بعض رکاوٹیں آگئی ہیں شاید اس کی وجہ اعتماد سازی کے اقدامات اور ابتدائی سہولت کاری میں غیرحقیقی توقعات اور کچھ جوش وخروش میں اضافے پر مبنی مطالبات پیش کرنا ہے۔ شکوک اور علاقائی فریقین میں باہمی کشاکش کی وجہ سے بھی اس ضمن میں مدد نہیں مل رہی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024