قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں میں قومی نظریہ، ادارے اور شخصیات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔1857ء کی جنگ آزادی کے بعد متعدد عسکری تحریکوں کے باوجود قوم شکست و ریخ کی دلدل میں دھنستی چلی گئی ۔ مایوسی اور بے دلی نے تقسیم در تقسیم کر ڈالا مگر سر سید کی علمی تحریک اور علی گڑھ کالج کے قیام سے نئی امنگوں اور آرزوئوں نے جنم لینا شروع کیا ۔ صدیوں کا سفر عشروں میں طے ہوتا دکھائی دیا ۔ برصغیر کے ہر گوشہ ہر کونہ میں مسلم بیداری کی لہر یں رواں دواں ہوئیں ۔ 1905ء میں مسلم اکثریت کی بنیاد پر بنگال تقسیم ہوا تو 1906ء میں مسلمانان برصغیر کے سیاسی مذہبی و سماجی حقوق کے تحفظ کیلئے آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوتی ہے جو برصغیر میں مسلمانوں کی علیحدہ حیثیت اور پہچان کا پرچم بلند کرتی ہے ۔ چشم فلک نے دیکھا کہ علی گڑھ کے فارغ التحصیل جوانوں نے برطانوی سامراج کے زیر نگیں ہوتے ہوئے ایک جانب خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ردعمل میں اس کی بحالی کیلئے تحریک خلافت چلائی گئی تو دوسری طرف طرابلس اور بلقان کی جنگوں کیلئے چندہ جمع کیا گیا ۔پھر سپاہ علی گڑھ کے ہمراہ دیگر مسلم اداروں کے جانباز 23مارچ 1940کو لاہور کے اقبال پارک (منٹو پارک) میں صف آراء دکھائی دیے ۔ برصغیر کی ہر تحصیل ہر ضلع سے مسلم لیگ کے نمائندے حضرت قائداعظم کی عظیم قیادت میں پاکستان کو اپنی منزل قرار دیکر اس کیلئے جدوجہد کا عزم ثمیم کیا اور سات سال کی قلیل مدت میں منزل مراد حاصل کرنے میں کامیاب و کامران ہوئے ۔ حصول آزادی کے بعد مہاجرین کی آبادکاری اور ریاستی ڈھانچے کی تشکیل نو کے ابھی مراحل میں ہی تھے کہ قوم اپنے عظیم قائد سے محروم ہوگئی ۔ وہ نظریاتی لام بندی نہ ہو سکی جو حصول وطن کا خاصہ تھا مگر قائد ملت شب و روز تگ و دو کے بعد دستور ساز اسمبلی سے قرار داد مقاصد منظور کروانے میں کامیاب ہوگئے جو آئندہ بننے والے آئین کے دیپاچے کی حیثیت قرار پایا ۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وطن عزیز سیاسی انتشار کا شکار ہوگیا ۔
جنرل ایوب نے مارشل لاء لگا کر ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی ۔کارخانے لگائے ، ڈیم بنائے مگر قومی یک جہتی اور نظریاتی صف بندی پر توجہ نہ دے سکا جس کے نتیجے میں مملکت خداداد دو لخت ہوگئی ۔ بھٹو نے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیکر ایوب دور میں لگنے والی صنعتوں کو قومی تحویل میں لے لیا ۔ اس عرصہ میں تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کا پاسبان و ترجمان واحد ادارہ نوائے وقت تھا جو ہر دور کی سختیوں اور پابندیوں کے باوجود کلمہ حق کے جہاد پر گامزن رہا ۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں ایک نظریاتی مسلم لیگی کارکن غلام حیدر وائیں کو آگے بڑھنے کا رستہ میسر آگیا ۔ وائیں صاحب کمال و مہارت سے غیر نظریاتی ٹولے کے غلبے کے باوجود نظریاتی ادارے قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جنہوں نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ قائم کرکے قائد کی بکھری ہوئی منتشر سپاہ کو ایک قوی و مضبوط مورچہ مہیا کر دیاجہاں مجید نظامی جیسے جواں ہمت اور فنا فل پاکستان کی قیادت میں بانیان پاکستان کی تعلیمات فکرو فلسفے سے آگاہی کا مشن پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے ۔نظریہ پاکستان کا مقصد دور جدید کے عین مطابق اسلامی فکر ترویج و اشاعت اور عالم اسلام کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیاکرنا ہے جہاں دنیا بھر کے مسلمان اپنے نسلی علاقائی اور مسلکی اختلافات کوپس پشت ڈال کر ملت واحدہ کی شکل اختیار کر سکیں ۔
حضرت مجید نظامی اور انکے زیر سرپرستی چلنے والے مقدس اداروں کے حوالے سے انکے ایک شاگردنے فکری بالیدگی اور نظریاتی بالغی کو نظر انداز کرتے ہوئے تین کالم جڑ دیے اور حد ادب بھی ملحوظ نہیں رکھا جس میں حضرت نظامی کے چمن کو اجڑا ہوابتانے کے علاوہ قائداعظم کی ذات پر دستاویزی فلم بنانے پر عدم دلچسپی کا الزام لگاتے ہیں اور تحریک پاکستان کے عظیم مجاہدوں کو بے کار بابے گردان کر انکی زندگی بھر کی نظریاتی خدمات سے انحراف کے مرتکب ہوئے اور عمران کو ان مقدس اداروں پر حملہ آور ہونے کی دعوت دیتے ہیں ۔ مجاہد پاکستان اور انکے اداروں پر لب کشائی کرنے والی شخصیت کے صحافتی اور قومی حوالے سے ماضی کا جائزہ لیا جائے تو بے ساختہ زبان پر آتا ہے چہ راہ خاک نسبت عالم پاک ۔حضور اپنی ادائوں پر خودہی غور کیجئے ۔ ہم اگر عرض کرینگے تو شکایت ہوگی ۔حضرت مجید نظامی نظریہ پاکستان اور ان سے منسلک اداروں کو ایک مشن اور قومی نصب العین مانتے تھے۔ انکی خدمات کی ضیا پاشیوں کا ہر محب وطن پاکستانی شاہد و قائل ہے ۔لہذا انہوں نے معاشرے میں موجود بہترین شخصیات کا چنائو کیا جسے آپ اجڑا ہوا چمن کہتے ہیں ۔ قوم انہیں پاسبان وطن کے طور پر جانتی ہے پہچانتی ہے ۔اگر آپ کو اداروں میں کمی بیشی دکھائی دے رہی تھی تو متعلقہ حضرات سے رجوع کرتے ۔ یوں خامیوں کو مشتہر کرنا دستور اخلاص کے منافی ہے ۔اب صاحبان نظریہ پاکستان ٹرسٹ پر بھی واجب ہے کہ موصوف کی گل فشانیوں کو خمیدہ کمر اور بڑھتی ہوئی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے تختہ مشق نہ بنائیں ۔ درگزر کے جذبے کے تحت صرف نظر فرمائیں۔ایک جدید فلاحی اسلامی جمہوری ریاست کی منزل کے حصول کیلئے اپنی کاوشیں تیز تر کریں ۔ وہ وقت دور نہیں جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرح ایوان قائد سے طلوع ہونے والے آفتاب سے پورا عالم اسلام روشن اور تاباں ہوجائے گا ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024