بہت سال پہلے ایک جاننے والے پولیس انسپکٹر نے ایک رات گھنٹہ گھر فیصل آباد کے پاس مجھے پولیس والوں سے بحث کرتے دیکھا تو کہا کہ اگر آپ کبھی رات کو یا کسی سڑک پر پولیس والوں کے ہتھے چڑھ جاو تو ان سے بحث کرنے کی بالکل بھی کوشش نہ کیا کرو۔اپنے پریس کارڈ اور اپنی ذاتی حیثیت کی کہانیاں بھی سنانے نہ بیٹھ جایا کرو۔بس دل میں رب کو یاد کرتے ہوئے اس مشکل وقت کو ٹالنے کی کوشش کرنے کی عادت اختیار کر لو ۔نرم لہجے میں منت سماجت سے اپنی جان بچانے کی کوشش کیا کرو۔کیونکہ پولیس میں بہت سے پڑھے لکھے نوجوا ن بھرتی ہوچکے ہیں جو کئی بار شوق شوق میں بھی بندے مار دیتے ہیں ۔انہیں قانون کی باریکیوں سے بخوبی آگاہی ہوتی ہے یہ کسی کی جان لینے کی بعد اپنی جان بچانے کے ہزار گُر جانتے ہیں ۔بس اس رات سے ہم نے قسم کھالی کہ دوبارہ پولیس والوں سے کبھی نہیں الجھنا ہے ۔جہاں کبھی موقع ملے انکی تعریف ہی کرنے کی کوشش کرنی ہے ۔ مجھے آج اپنے اس مہربان کا نام بھی یاد نہیں آرہا ہے لیکن مجھے اسکی باتیں اور اسکی آنکھوں میں خوف کے سائے ضرور یاد آرہے ہیں ۔کل جب دن دیہاڑے پولیس والوں نے ایک فیملی کار میں سفر کرتے لوگوں کو آتشیں اسلحے سے پھڑکادیا تومجھے اس شخص کی باتیں سچ لگنے لگیں ۔ان پولیس والوں کی ان لوگوں سے کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں لگتی ۔پھر بھی۔یہ ظلم گاڑی کے ٹائروں میں بھی فائر کیے جاسکتے تھے ۔کسی کی ٹانگ پہ بھی گولی چلائی جاسکتی تھی ۔سارے ملک لوگوں کی طرح مجھے بھی پولیس فورس سے نفرت محسوس ہونے لگی ۔یہ کیسے لوگ ہیں ,طاقت کا نشہ کیا ہوتا ہے ۔کیا ہوجاتا ہے ان لوگوں کو ۔جو یہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کو مار دیتے ہیں ۔اب اس بچے کی ویڈیو چل رہی ہے جو کہہ رہا ہے کہ میرے باپ نے کہا تھا کہ پیسے لے لو مگر ہمیں معاف کردو۔لیکن پولیس والوں نے معافی کی بجائے انکی جان لے لی ۔ایک خاندان اُجڑ گیا۔حکومت کیا کر لے گی ۔ہمارا سسٹم کیا کریگا ۔پولیس والے کوئی خلائی مخلوق تو ہیں نہیں یہ ہمارے ہی بھائی بچے ہیں تو پھر انکے دل میں بے رحمی اور زبان میں سختی کون پیدا کردیتا ہے ۔کیا انکی تربیت میں کمی رہ جاتی ہے یا انہیں محکمہ غلط تربیت دیتا ہے ۔ہر سانحے کے بعد جے آئی ٹی ہر واقعے کے بعد کوئی عدالتی کمیشن,جب تک نظام نہیں بدلا جائیگا کچھ نہیں ہوسکتاہے ۔خان صاحب نے بڑی بار کہا تھا کہ وہ پولیس کو آزاد ادارہ بنا دیں گے مگر ابھی تک تو یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ انکے آگے پیچھے بیٹھے لوگوں نے بار بار پولیس کو دبانے کی کامیاب کوششیں کر کے انکے دعوے کو غلط ثابت کیا ہے۔اب پھر جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے , جے آئی ٹی تاریخوں پہ تاریخیں اور پھر کوئی نیا واقعہ کوئی نیا المیہ قوم بھی بھول جائیگی ۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ میرے ملک میں پولیس ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی ہے ۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس محکمے میں آنیوالا ہر فرد اپنے آپ کو ایک الگ ہی مخلوق سمجھنے لگ جاتا ہے ۔مگر بہت سے شریف اور فرض شناس لوگ بھی اس محکمے میں موجودہیں۔ پولیس کا محکمہ جس کا واسطہ ہر وقت ہر دن عام لوگوں سے پڑتا ہے ۔اس محکمے کو بدنام کرنے میں جہاں اس محکمے میں موجود کچھ کالی بھیڑوں کا ہاتھ ہے وہیں ہمارے ان بااثر لوگوں کا بھی پورا پورا ہاتھ ہے جو اپنے تعلقات کی بنا پر پولیس کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کیلئے غلط کام کریں پولیس کے محکمے پر جب تک بااثر لوگوں کا دباوُ رہے گا ۔ان سے بہتر کاکردگی کی امید رکھنا فضول ہے ۔مقدر سے زیادہ کی طلب ,وقت سے پہلے کی خواہش,توکل کی کمی اور آخرت پہ یقین کی کمی نے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔ہم ہیجان کی کیفیت میں زندگیاں گزارنے لگے ہیں۔ صبر اور برداشت ہماری زندگیوں سے رخصت ہوچکا ہے ۔ہم خشک پتوں کی طرح سڑکوں اور بازاروں میں بے ترتیبی سے بھاگتے رہتے ہیں ۔ ہم بہتر اور جدید تعلیم ضرور حاصل کر رہے ہیں ۔مگر ہماری تربیت میں بہت سی خامیاں رہتی جارہی ہیں ۔ہمیں پیسہ کمانے کے طریقے بتانے والے بہت سے ہیں ۔مگر انسانیت سے پیار کا سبق سکھانے والے بہت کم۔اسی کا اثر ہے کہ ہماری زندگیوں میں پیسہ تو بہت آرہا ہے مگر سکون غائب ہوتا جارہا ہے ۔زندگیاں مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہیں ۔بیماریاں بڑھ رہی ہیں ۔رشتوں کا احترام ختم ہوتا جارہا ہے ۔ کوئی نہیں آگے بڑھ کے سمجھا رہا ہے کہ اپنے اردگرد رہنے والوں کے دکھ سکھ میں شامل ہوئے بغیر ایک صحت مند معاشرے کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔موت سب کو ہی آنی ہے ۔عام آدمی کو بھی اور وزیروں مشیروں کو بھی ۔مگر پروٹوکول کے نام پر کل ہی جو مظاہرہ ہمارے سادگی پسند وزیر اعلی کے کارواں میں دیکھا گیا اس سے سبھی حیراں ہیں اور شائد جناب عمران خان صاحب بھی پریشا ن ہوں کہ بلٹ پروف اور بم پروف گاڑی میں بیٹھے وزیر اعلی پنجاب کو اتنی سکیورٹی کی کیا ضرورت ہے ۔وہ زیر لب کہہ رہے ہونگے کہ مغرب میں تو ایسا بالکل نہیں ہوتا کہ حکمرانوں کیلئے اتنی سیکورٹی ہو اور عوام کا حال پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔نیا پاکستان بنانے والوں کو نئی سوچ سے آگے دیکھنا ہوگا ۔ملک میں ایسے واقعات کاہوتے رہنا لمحہ فکریہ ہے ۔لیکن اسکی روک تھام کیلئے متوازی نظام کی بجائے پہلے سے موجود نظام کو موثر بنانے کی ضرورت ہے ۔جب حکمران عوام کو تحفظ دینگے تو انہیں اپنی زندگی بھی محفوظ لگنے لگے گی۔
پاکستان زندہ باد پاک فوج پائندہ باد
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024