سانحہ ماڈل ٹائون کے نام پر ہونے والے اپوزیشن کے مشترکہ جلسے کے حوالے سے اگر اکثر توقعات کے ہمالہ کھڑے ہو گئے تھے تو کچھ ایسا غلط نہ تھا ظاہر ہے جس جلسے میں عمران خان‘ آصف زرداری‘ ڈاکٹر طاہر القادری‘ شیخ رشید اور دیگر معروف سیاسی رہنما شریک ہوں اس جلسے کی متوقع حاضری اور ممکنہ سیاسی اثرات ایسی سوچ اور تصورات کو جنم دے سکتے تھے۔ پہلے تو عمران نے آصف زرداری کے ساتھ ایک سٹیج پر آنے سے انکار کیا ڈاکٹر طاہر القادری کی منت سماجت سے مشروط آمادگی یوں ظاہر کی کہ جلسے کے دو سیشن کئے جائیں پہلے سیشن میں آصف زرداری خطاب کرے۔ اس شرط نے ڈاکٹر طاہر القادری کو ضرور پریشانی میں مبتلا کیا ہو گا کہ شاید آصف زرداری اسے اپنی توہین سمجھیں کہ عمران خان سے پہلے خطاب کرکے خود دوسری پوزیشن اختیار کرلیں مگر انہیں خوشگوار حیرت ہوئی ہو گی جب آصف زرداری نے یہ ’’سیاسی پسپائی‘‘ برداشت کرلی سوال کیا جا سکتا ہے کیوں‘ اس کیوں کا جواب یہ ہے کہ اس جلسے کے بڑے اجتماع کی توقع میں آصف زرداری نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کی کھوئی ساکھ بحال کرنے کا موقع سمجھا‘ ایسے ہی جلسے کیلئے وہ فیصل آباد کا راستہ دکھا رہے ہیں پھر 5فروری کو موچی دروازہ لاہور میں پیپلزپارٹی کا جلسہ‘ اس سلسلے کی کڑی ہے۔ یعنی وسطیٰ پنجاب میں 20سال بعد سیاسی پیش قدمی کی حکمت عملی۔مال روڈ کے جلسے سے سانحہ ماڈل ٹائون کے مجرموں کو سزا دلانے کی مشترکہ تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا تھا مگر خود اس کے مدعی ڈاکٹر طاہر القادری کے اس اعلان نے دوسرا رُخ دے دیا ہے انہوں نے کہا ’’میں اس تحریک کو ’’جسٹس فار زینب‘‘ کا نام دیتا ہوں اور اس سے اگر یہ سمجھا جائے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے یا پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے مقابلے میں زینب کے حوالے سے عوامی جذبات زیادہ بپھرے ہوئے ہیں اور انہیں سیاسی مقصد براری کا ذریعہ بنایا جانا زیادہ فائدہ مند ہے‘ بہرحال آئندہ لائحہ عمل اور اس پر عمل کیلئے سیاسی جماعتوں کی حصہ داری دیکھ کر ہی کچھ فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
اس جلسہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ 20سال سیاسی عمل کا حصہ رہنے کے باوجود عمران خان نے سیاسی عدم بلوغت کا اظہار کیا۔ شیخ رشید نے تو پارلیمنٹ پر لعنت اس لئے بھیجی کہ ذرا ہٹ کر بات کرکے خود کو نمایاں کیا جائے لیکن اس سلسلے میں عمران خان کو اعتماد میں نہیں لیا نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ’’سعادت مند شاگرد‘‘ نے ’’سیاسی اتالیق‘‘ کی پیروی میں اس پارلیمنٹ پر لعنت بھیج دی جس کے ذریعہ وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں اس ’’سیاسی بلوغت‘‘ نے خود سمیت اپنے ارکان پر بھی اس لعنت کا حصہ ہونے کا داغ لگا دیا۔ شیخ رشید نے تو ’’لعنتی‘‘ اسمبلی سے استعفیٰ کا اعلان کرکے طاہر القادری سے ’’مین آف میچ‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا مگر ایسی شدید بیماری کا حملہ ہوا کہ خود اسمبلی جاکر سپیکر کو استعفیٰ پیش نہ کر سکے اور نمونیہ کا علاج کرانے دوبئی چلے گئے خود کہتے ہیں ’’شیخوں والی ساری صفات‘‘ رکھتے ہیں چنانچہ گھاٹے کا سودا کرنے کی بجائے ایسا چکر چلائیں گے استعفیٰ گول ہی ہو جائے یا پھر‘ 2فروری کے بعد دیں گے تاکہ ضمنی الیکشن نہ ہو سکے۔ یہ امکان بھی اپنی جگہ چند لڑکوں کے ’’استعفیٰ نامنظور‘‘ کے مظاہرے سے مجبور ہو کر اس لعنت (پارلیمنٹ) میں بدستور رہنے کی راہ نکال لیں لیکن اصل مسئلہ عمران خان کا ہے۔ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کو خود پارٹی میں پذیرائی نہیں ملی۔ دلچسپ صورت ہے جہانگیر ترین اور علیم خان جو پہلے ہی اس ’’لعنت‘‘ سے باہر ہیں عمران سمیت استعفوں کے حامی اور جو اس کا حصہ ہیں مثلاً شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر‘ عارف علوی اور پرویز خٹک جیسے استعفوں کے خلاف ہیں۔ 29جنوری کو جو مشاورتی اجلاس طلب کیا گیا ہے اس میں کثرت رائے کا احترام استعفوں سے بچنے کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ عمران خان کی شرکت کے باوجود اس جلسہ کو تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق کا ’’فلاپ شو‘‘ تسلیم کرلینا جہاں سیاسی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ ہے وہاں فلاب شو کو مخالفین کا پروپیگنڈا قرار دینے کا راستہ بھی بند ہو گیا ہے بھلا گھر کی گواہی سے زیادہ معتبر کون ہو سکتا ہے ویسے اگر عمران پارلیمنٹ کے تقاضوں کی صحیح بجاآوری نہ کرنے والوں پر لعنت بھیجتے تو کچھ سیاسی بلوغت کا بھرم رہ جاتا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس فلاپ شو سے طاہر القادری کو کیا ملا۔ پیپلزپارٹی تحریک انصاف‘ (ق) لیگ اور دیگر بارہ جماعتیں چالیس پچاس ہزار کا اکٹھ کر لیتیں تو ان کا سیاسی قد بہت بلند ہو جاتا لیکن یہ بڑا سیاسی قد تخت لاہور کے آرزو مندوں کے قدموں کی زنجیر بن سکتا تھا اس لئے اس ’’قد‘‘ کو اصلی قد رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی اب وہ کینیڈا سے دوبارہ واپس آئیں گے تو بہت امکان ہے بدلا ہوا منظر پائیں گے۔جہاں تک پاکستانی میڈیا کا تعلق ہے جس طرح پاکستان مخالف بھارتی عزائم پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ ایوان صدر میں تمام مکاتب فکر کے 18سو علمائے کرام کے متفقہ فتویٰ کو نظر انداز کیا گیا ہے جس کے مطابق دہشتگردی‘ خودکش حملے اور نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جدوجہد کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ صدر ممنون حسین نے درست کہاکہ پیغام پاکستان فتویٰ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پاکستانی قوم سنجیدہ ہے اس سنجیدگی کا زندہ ثبوت پاکستان کی مسلح افواج کے افسروں‘ جوانوں اور عام شہریوں کی جانی قربانیاں اور اربوں ڈالر کا نقصان ہے جبکہ جاری و ساری ردالفساد آپریشن بھی اس کا ہی عکاس ہے۔ بھارتی فوج کی جانب سے پیش کردہ ڈاکٹرائین میں مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد دراندازی روکنے کیلئے سرجیکل سٹرائیک کو بہترین متبادل قرار دیا گیا جو انٹیگریٹڈ ڈیفنس سٹاف ہیڈ کوارٹر میں پیش کیا گیا بھارتی وزیر دفاع نرمیلا سیتارام کی زیرصدارت اجلاس میں پاکستان اور چین سے نمٹنے کیلئے 35ارب روپے کا اسلحہ خریدنے کا فیصلہ کیا گیا‘ 72ہزار 4سو اسالٹ رائفلز اور 93ہزار 8سو 95کاربائنز کی خریداری کی منظوری دی گئی حال ہی میں مودی نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے جو جنگی ساز وسامان خریدنے کے معاہدے کئے اور 2014ء کے بعد مودی نے امریکہ‘ اسرائیل اور روس سے جو اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدا وہ الگ ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل کے پیٹ میں بھی سی پیک کے مروڑ اُٹھ رہے ہیں جس کے زیراثر امریکہ نے گلگت بلتستان کو متنازعہ علاقہ قرار دیا‘ بھارت یہاں کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی سازش اور پیسہ تقسیم کر رہا ہے۔ 15اگست 2016ء کو مودی نے لال قلعہ دہلی میں کھڑے ہوکر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر اپنا حق جتایا۔ گلگت بلتستان پولیس کے آئی جی نے انکشاف کیا کہ سکیورٹی اداروں نے اس گروہ کے بارہ افراد کو گرفتار کیا جسے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ سی پیک کے خلاف استعمال کر رہی ہے ان کے قبضہ سے کلاشنکوفیں‘ حساس مقامات کے نقشے اور ٹیلی سکوپ برآمد ہوئے ان کا تعلق بلوارستان نیشنل فرنٹ سے ہے جو پاکستان مخالف نظریات کو فروغ دے رہے ہیں را کی جانب سے اس گروہ کو 30کروڑ روپے کی ادائیگی کر دی گئی ہے۔ بھارتی میڈیا میں کچھ عرصہ قبل عوامی ورکرز پارٹی اور بابا جان سے متعلق رپورٹ کو اچھالا گیا جس کے مطابق گلگت بلتستان کو پاکستان کا مقبوضہ علاقہ قرار دیا گیا جہاں فوج غیرقانونی طور پر موجود ہے اور لوگ حق خودارادیت سے محروم ہیں عوامی ورکرز پارٹی نے اس رپورٹ کی شدید مذمت کی اور بے بنیاد قرار دیا جبکہ بابا جان پارٹی کے ہنزہ میں منعقدہ اجلاس میں آزادی‘ علحدگی یا پاکستان مخالف نعرہ نہیں لگا۔ سی پیک کے خلاف بھارتی عزائم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سی پیک کے خلاف نیشنل ڈیفنس کالج میں پڑھایا جا رہا ہے جبکہ پاکستانی میڈیا میں بعض ایسے بدقماش بھی ہیں جو سی پیک کو پاکستان کی بجائے چین کے مفاد میں ہونے کا غلط تاثر دے رہے ہیں جس سے بھارتی میڈیا کو تقویت مل رہی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024