واصف علی واصف کا کہنا ہے کہ جب قیادتوںکی بہتات ہو تو قحط الرجال ہوتا ہے۔ یہ حادثہ پاک سرزمین پر بسنے والوں کا ہی نہیں بلکہ یہ صدمہ پوری اُمت مسلمہ کو درپیش ہے۔ بے نظیر بھٹو کے سفاکانہ قتل کے بعد پورا ملک دہشت زدگی کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ 2008ءکے الیکشن کے بعد وجود میں آنے والی حزب اقتدار و اختلاف ایک مخصوص ایجنڈے پر متفق اور کاربند رہیں ماسوائے عدالتِ عظمی کی بحالی کی خاطر لانگ مارچ کہیں بڑے اجتماعات دیکھنے کو نہیں ملے۔ 25 اکتوبر2011ءکو لاہور میں تحریک انصاف کا جلسہ جمہوریت کیلئے ایسا خوش بخت ثابت ہوا کہ جلسوں کا موسم ہی آ گیا۔ عمران کے کراچی اور کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں جلسے ایم کیو ایم نے ملک کے مختلف شہروں میں اجتماعات کر دکھائے۔ جمعیت العلمائے اسلام نے سکھر میں بڑا جلسہ منعقد کیا۔ مسلم لیگ ن اور پی پی نے بھی ملک گیر پارٹی ہونے کا ثبوت دیا پھر 14 دسمبر 2012ءمسلم لیگ فنکشنل اپنی تاریخ کا پہلا سیاسی جلسہ جو حیدر آباد میں کیا۔ بی بی سی کے مطابق جنوبی ایشیا کی تاریخ کا سب سے بڑا منظم جلسہ تھا جو کہ بغیر کسی سرکاری انتظامی اعانت کے منعقد ہوا۔
بعد ازاں قبلہ قادری کی آمد کی دھمک نے میدان سیاست کو گرما دیا۔ 23 دسمبر کو لاہور میں قومی پرچم بردار جلسہ جس میں علامہ نے حکومت کو گلا پھاڑ پھاڑ کر للکارتے ہوئے دونوں بڑی جماعتوں کے مک مکا اور آئندہ الیکشن کے انعقاد میں خامی و نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں 14 جنوری تک کا موقع دیا۔ اگر آئندہ الیکشن کےلئے علامہ کی تجویز کردہ اصلاحات نہ کی گئیں تو چار ملین افراد اسلام آباد غیر معینہ مدت تک دھرنا دیں گے۔ تحریک منہاج القرآن کے شعبہ نشر و اشاعت نے پروگرام کی تشہیر تمام ابلاغی ذرائع سے برپا کر دی۔ پھر 13 جنوری کو پاکستانی عوام کی نظریں ٹی وی سکرین پر جم گئیں۔ سیاست یا ریاست کا نعرہ انقلاب موبائل سروس نایاب، بجلی گیس کمیاب تحریکی کارکن بے تاب اور پوری قوم حالت اضطراب کا شکار تھی۔ خدا خدا کرکے جلوس شام کو لاہور سے روانہ ہوا۔ پنجاب پولیس کی بڑی جمعیت جلوس کی حفاظت کی سعادت میں تھی۔ لانگ مارچ کیا تھا کسی مغلیہ شہنشاہ کا قافلہ اپنی شان و شوکت، جلال و حشمت کے ساتھ دارالخلافہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ شہنشاہ¿ معظم بُلٹ پروف بیڑے کی کسی ایک نامعلوم گاڑی میں فتح کے ترانے سُنتے محو سفر تھے۔ ساتھ جانثار رعایا 65 سالہ جور و جبر کے نظام سے نجات کی امید لگائے اپنے مقدس قائد کے قصیدے پڑھتے ہوئے فتح مبین کی جانب بڑھ رہے تھے۔ آج وہ اس مقدس ریاست کو جو ان کے بزرگوں نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی تھی اس ریاست کی حفاظت کےلئے فیصلہ کن جنگ لڑنے ایک عظیم مفکر دین مجدد زماں شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری مدظلہ کی قیادت میں جہاد پر گامزن تھے جس کے نتیجے میں 65 سالہ بداعمالیوں اور نالائقیوں سے چھٹکارا دلا کر حقیقی روپ دینے کا گمان رکھتے تھے جس کی خواہش میں ان کے بزرگوں نے اپنا تن من دھن قربان کر دیا۔ ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست وہ پاکستان جس کا خواب مرشد اقبال نے دیکھا جس کے قیام کےلئے حضرت قائد اپنی مہلک بیماری چھپاتے رہے۔ سارے راستے لوگوں نے استقبال کیا پھول نچھاور کئے۔ حضرت قادری کو نجات دہندہ، مسیحا لانگ مارچ کو قافلہ حریت جانا۔ 13جنوری کو چلنے والا جلوس 14 کی رات کو پہنچا۔ حضرت قادری کا متکبرانہ خطاب ”سیاست یا ریاست“ کا نعرہ یزید و حسین کی جنگ میں تبدیل ہوگیا۔ حکومت ختم کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اگلے دن خطاب کے دوران عدالت عظمیٰ کا وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آیا تو اسے اپنی کرامت بتاتے ہوئے آدھا کام ہو گیا کی بشارت دی۔ گزرتے وقت کے ساتھ قائد کے مزاج میں تناﺅ غصہ بڑھتا جا رہا تھا ۔ تھکاوٹ، اُکتاہٹ اور جھینپ چہرے پر بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک جانب ٹی وی چینل پر تمام سیاسی جوگادری طاہر القادری کے ماضی کریدنے بم پروف پر آسائش اور محفوظ کنٹینر میں رہنے بڑی بڑی بڑھکیں مارنے پر طنز و مزاح کے تیر چھوڑ رہے تھے۔ اتنے بڑے ایونٹ میں کوئی شخص حضرت قادری کی تائید و حمایت کے لئے تیار نہ ہوا۔ پہلے مرحلے میں ایم کیو ایم اور ق لیگ نے ساتھ چھوڑا پھر شیخ رشید بھاگے۔ حضرت شیخ الاسلام کو بالآخر اس بات پر غور فرمانا ہو گا کہ اتنے بڑے ایونٹ میں اس سے بڑی شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ یہ کوشش نتیجہ خیز کیوں نہیں ہوئی جبکہ پوری قوم کی ہمدردیاں اس اجتماع کے ساتھ تھیں۔
تاہم اس ایونٹ نے پاک سرزمین کے عوام کی حب الوطنی، اخلاص و ایثار کو وہ بلندی اور سرفرازی بخشی جو اس قوم کا خاصا ہے بلاشبہ اس معرکہ میں شامل تمام پیر و جواں مرد و زن میں جذبہ ایمانی اور قوت برداشت قوم و ملک کےلئے مر مٹنے کا لافانی عزم دیکھا گیا جس سے وہ شکایات دور ہو گئیں جو شیخ رشید جیسے رہبر دہراتے ہیں کہ پاکستانی عوام ظلم و زیادتی برداشت کرنے کے عادی ہیں بغاوت کرنا نہیں جانتے مرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ یہ نظم و ضبط سے ناواقف ہیں، سیاسی جلسوں میں ٹائر جلانے، دھواں اُڑانے، سگنل جنگلے توڑنے، بینک اور دکانیں لوٹتے ہیں۔ کھانوں پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ الاماں الحفیظ۔ علامہ کی اس مہم جوئی نے جہاں ان کو زندگی کی آخری ناکامی سے دوچار کیا وہاں پاکستانی عوام کا ایک نیا دُھلا اور اُجلا چہرہ دنیا کو دکھایا کہ یہ قوم نہ صرف تبدیلی چاہتی ہے بلکہ اس کیلئے قربانی سے دریغ نہیں کرتی۔ اس اجتماع میں ہر شعبہ ہر طبقہ زندگی کے لوگ شامل تھے۔ سب کے جذبے ولولے ایک سمت اور ایک طرز و انداز کے تھے۔ اپنے معصوم بچوں کو لےکر ایسے میدان عمل میں نکلے جہاں تمام خطرات اور خدشات ممکن تھے پھر اتنی بڑی تعداد اور طویل مدت کے قیام کے باوجود کہیں لغزش ہے نہ شکایت۔ ایک شیشہ ٹوٹا نہ کسی نے پتھر اچھالا اب کی بار ایک نیا منظرنامہ تھا۔ دنیا کے کونے کونے سے پاکستان کے مختلف گوشوں سے مختلف رنگ و زبان کے لوگ ایک مقصد ایک منزل کےلئے مرد و زن عزم کی چٹان استقلال کا پہاڑ نظر آ رہا تھا۔ جذبوں کے بہتے دریا تھے ولولوں کے اُبلتے زمزے تھے۔ قوم کی بیٹیاں بیٹے اپنی تقدیر بدلنے ملت کی تصویر بدلنے کیلئے خطرات کا سامنا کرنا ہر ظلم سے ٹکرانے کےلئے کمربستہ تھے۔ ہر زباں شعلہ فگن، ہر جواں شیر افگن، وہ سماں و منظر کھلے آسماں، شدید سردی برستی بارش، ماﺅں کی گودوں میں شیر خوار ٹھٹھرتے بچے ہر ذی شعور پاکستانی کی آنکھ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ تمام اذیتوں سختیوں کے باوجود اللہ کے بندے ڈٹے رہے۔ حوصلے پست ہوئے نہ ارادے شکستہ ہو سکے اپنی منزل کی امید باندھے وہ عہد آفریں کردار نبھایا کہ دنیا ایک بار عش عش کر اٹھی۔ گھر ٹی وی کے سامنے بیٹھے لوگوں کی کیفیات بھی 65 کی جنگ جیسی تھی کہ اپنے بہن بھائیوں کی مدد کیلئے بے قرار و بے تاب تھے اگر یہ سلسلہ ایک رات مزید جاری رہتا جناب علامہ گرم دمدموں میں خوف زدہ نہ ہوتے اپنے اعصاب پر قابو رکھتے تو ہر جانب ہر سمت سے لوگ مدد کیلئے نکل آتے۔ اس لانگ مارچ کے سود و زیاں پر گفتگو جاری ہے مگر پاکستان کے غیور عوام نے ایک بار اقبالؒ کے فرمان ”ذرا نم ہو تو مٹی زرخیز ہے ساقی“ کو سچ کر دکھایا۔ شرکاءلانگ مارچ کے حوصلوں غلغلوں نے جہاں 1947ء اور 1965ءکے جذبوں کو تازہ کر دیا وہاں ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ پاکستان کی تمام ناکامیوں بحرانوں اور مسائل کی ذمہ دار ہم پر مسلط بھونڈی، بودی اور بونی قیادتیں ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024