پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اتنے ہزار کا مقروض ہے۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ دنیا میں آنے سے پہلے بچے نے کس سے اور کہاں سے قرض لے لیا تھا؟ بچپن تھا ہر انسان کا معصوم فیز۔ پھر پوری قوم مقروض ہوگئی تو سمجھ آئی کہ کیسے ہر شخص قرض کے پھندے میں پھنسا اوراب ادائیگی کے مراحل اتنے جان لیوا ہوچکے ہیں کہ پوری قوم کراہتی رہی۔ قرضے اور واجبات 88ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ کتنی مدت میں؟ ایک سال میں۔ جی قارئین صرف ایک سال میں۔ پہلا قرض جو پاکستان نے لیا تھا وہ تھا 25ہزار ڈالرز 1954ء میں( اگر اعداد کچھ مختلف ہیں تو صاحب علم تصیح کر سکتے ہیں) اور اب 2025ء کے بارہ مہینوں میں ہم ترقی کے کِس مقام پر پہنچ گئے؟ معیشت کیسے سدھر سکتی ہے جب آپ پچھلا قرض اْتارنے کے لیے نیا قرض اْٹھالیں۔ مڈل کلاس بہت مشکل اور تکلیف دہ حالات سے گزر رہی ہے۔ کوئی شک نہیں معاشی ترقی کے حروف پر مگر سوال ہے کہ ترقی کرتی معیشت میں لازمی سروسز کی قیمتوں میں کیوں اضافہ ہوتا رہا؟ ہر 15دن کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کیوں بڑھتی رہیں؟ جبکہ عالمی منڈی میں قیمتیں کم ترین سطح پر آچکی تھیں؟ اِس مرتبہ ہونے والی کمی اتنی کم ہے کہ کِسی کا تعریف کرنے کو دل نہیں چاہ رہا کل ایک فورم پر بس ایک روپے کمی کا اظہار کرتی خاتون کو میں نے کہا کہ شکر کریں اتنا ہی کم کر دیا اگر یہ بھی نہ کرتے تو ہم نے کیا بگاڑ لینا تھا۔ عالمی معاشی اداروں کا پاکستانی معیشت پر اظہار اطمینان خوش آئند۔ پر سوال یہ ہے کہ مارکیٹ میں اشیائے صرف کے نرخ کیوں نہیں رْک پا رہے؟
ہر طرف پھولوں کی خوشبو اور رنگوں کی بہار ہے۔ ہمیشہ کی طرح اِس موسم میں ہر شہر اور گاؤں مختلف طرز کے میلوں۔ ٹھیلوں سے سج جاتے ہیں۔ ثقافتی پروگرامز۔ کھیلوں کے میدان منانا۔ سجانا بْری بات نہیں مگر جب خود کے حالات پر نظر واپس آتی ہے تو دل خوف کا شکار ہو جاتا ہے اب نہیں تو کب؟ میلے اور بیانات ہر دو ماضی اور لمحہ حاضر میں عوامی مسائل حل کرنے میں کْلی طور پر فلاپ رہے ہیں کوئی مجھ سے حل پوچھے تو میں تماشوں۔ ٹھیلوں پر لگنے والے پیسوں کو قوم کو معیاری تعلیم دلوانے پر لگانے کا کہوں۔ ایک تعلیم یافتہ فردہی کامیاب پروفیشنل اور کامیاب بزنس مین کہلاتا ہے۔ ہنر اور تعلیم کِسی ذی نفس کو بھوک سے مرنے نہیں دیتی۔ حکومت سرکاری اداروں کا بھاری بھر کم سائز کم کرنے کے جتن میں مصروف کار ہے۔ انتظامی معاملات۔ محکموں کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے اور چلانے کے ایسے ہی بھیانک نتائج بر آمد ہوا کرتے ہیں۔ ہر فیصلہ میں سیاست۔ ہر محکمہ میں سیاسی پسند۔ ہر تعیناتی میں ذاتی مفاد۔ شکر ہے کہ اِس سمت میں سفر کا آغازتو ہوا یقینا بہت وقت درکار ہوگا بد نتائج کے مکمل خاتمہ میں۔ پنجاب بھر میں موٹر سائیکل کی سپیڈ 60کلو میٹر گھنٹہ مقرر۔ جرمانہ کی مالیت اتنی ہو کہ سوار خلاف ورزی کرنے سے پہلے 100مرتبہ سوچے۔ تقریباً سال قبل بذریعہ کالم تجویز کیا تھا کہ موٹر سائیکل اور سائیکل کے لیے الگ لین بنائی جائے۔ خوشی ہے کہ بہت ساری تجاویز کے ساتھ ایک اور تجویز بھی عملی صورت اختیار کر گئی۔ لاہور میں 10 کلومیٹر لمبی بائیکرز لین نے کام شروع کر دیا ہے مرحلہ وار لاہور کی تمام سٹرکوں پر بائیکر لینز بنائی جائیں گی۔
آئی ٹی میں اربوں ڈالرز کمانے کے دعوے۔ کچھ سال ہو گئے سْنتے ہوئے۔ ارضی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں قدرتی طور پر ہر بچے میں ہنر موجود ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کروڑوں بچوں کو کِس حد تک اور کِس معیار کی تعلیمی سہولیات میسر ہیں؟ چند لاکھ بچے کلاس ون کی تعلیم حاصل کرنے کی اہلیت اور وسائل رکھتے ہیں ایسے نوجوانوں کے پاس متعدد آپشنز ہوتے ہیں باہر نکل جائیں یا ادھر ہی مناسب سرمایہ سے آئی ٹی کمپنی کھول لیں۔ بڑے صنعتی ادارے قائم کرنے کے لیے اربوں روپے چاہیے ہوتے ہیں مگر اچھی معیاری آئی ٹی کمپنی نصف ارب سے ایک ارب تک بآسانی قائم کی جاسکتی ہے بے شک لمحہ موجود میں اِس شعبہ میں ترقی کے امکانات بہت قوی ہیں مگر یہاں کی دنیا لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے آج ایک پروڈکٹ اِن ہے تو اگلے دن وہ بیک ورڈ ہو چکی ہوتی ہے۔ دنیا زمین سے خلاء کھوج رہی ہے اور ہم؟ خوش نصیبی سے پاکستان کا شمار اْن ممالک میں ہوتا ہے جس کے شہری کثیر مال خیرات۔ زکٰوۃ کی مد میں عطیہ کرتے ہیں پر بد قسمتی سے ہمارے بچوں کی کثیر تعداد خیراتی اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے ایسے خیراتی ٹریننگ ادارے جس معیار کا علم و ہنر بچوں کو سکھا رہے ہیں فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایسے بچوں کا کیا معیار ہوتا ہے؟ سال کے 12 مہینے انٹرنیٹ بند چل رہا ہو تو بیرونی دنیا سے ہمارا رابطہ کیسے جْڑے گا؟ کون پاگل ترقی یافتہ دنیا سے اْٹھ کر بندشوں والے ملک میں اپنا روپیہ پیسہ لگانا پسند کرے گا؟ تعلیم کے بغیر کوئی قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے؟ بین الاقوامی حالات کو جاننے بیرونی دنیا سے جْڑنے کے لیے آپ کو بہترین تربیت۔ ہنر کے علاوہ زبان دانی پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے۔ غیر ملکی زبانوں بالخصوص انگریزی دانی پر مہارت کے بغیر ایک نوجوان کیسے دوسرے معاشرہ میں ایڈجسٹ ہو سکتا ہے؟
کسی بھی دور کو اْٹھا کر دیکھ لیں، تاریخ کو کھنگا لیں، تعلیم ترجحات کی فہرست میں ہمیشہ نچلے ترین درجہ پر نظر آئی گی۔ حکومت کے پاس سنہری موقع ہے کہ تمام اداروں کے مکمل تعاون کی تصویر میں تعلیم پر اپنے کثیر وسائل اور توجہ مرتکز کر دے۔ عصری و فنی مہارت کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ بیرونی دنیا میں پیشہ وارانہ علوم کی زیادہ طلب ہے۔ پاکستانی قوم ذہانت میں کسی سے بھی کم نہیں۔ ضرورت معیار سہولتوں سے آراستہ تعلیمی و فنی علوم کی ہے۔ اب اس شعبہ پر زیادہ توجہ دینا ہماری ضرورت ہی نہیں مجبوری بن چکی ہے جو حالات دنیا کے ہوچکے ہیں۔
٭…٭…٭
تعلیم اور قرض
Feb 21, 2025