
گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
یہ عموماً کہا جاتا ہے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔مغربی معاشرے کو دیکھا جائے تو واقعی ریاست ماں جیسی کا تصور سچ نظرآتا ہے جب کہ اگر ہم اپنے ملک کی بات کریں تو جس طرح کے لوگوں کے ہتھے ملک چڑھا ہواہے انہوں نے ریاست کو پاگل ماں جیسا بنا دیا ہے وہ پاگل جو اپنے بچوں کو بھی نوچ لیتی ہے۔ مغرب کے کئی ممالک میں سرکاری ملازمت ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھی جاتی ہے۔سروس کے دوران آپ کو جو مراعات ملتی ہیں ان کا پاکستان میں تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔پہلی سے ایک روز قبل تنخواہ ادا کر دی جاتی ہے۔ ڈیوٹی کتنی ہوتی ہے وہ کچھ ممالک میں مختلف اوقات کار ہیں۔ جیسے جرمنی میں ہفتے میں پانچ دن کام کرنا ہوتا ہے،ان پانچ دنوں میں 37 گھنٹے ورکنگ آور رکھے گئے ہیں جبکہ امریکہ میں بھی پانچ گھنٹے ہی کام ہوتا ہے مگر یہاں پر ورکنگ آورآٹھ گھنٹے ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں بارہ مہینے میں چودہ تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ایک تنخواہ دسمبر میں زائد دی جاتی ہے جسے ’’تھرٹین منتھ سیلری‘‘ کہا جاتا ہے یعنی تیرہویں مہینے کی تنخواہ۔ اس سے لوگ خریداری وغیرہ کرتے ہیں کرسمس کے لیے۔جب کہ ایک اضافی اور تنخواہ سالانہ بونس کی مد میں دی جاتی ہے اور پھر سال کے بارہ مہینے نہیں صرف گیارہ مہینے کام کرنا ہوتا ہے۔ایک مہینہ چھٹی دی جاتی ہے۔ صحت اور تعلیم کی تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہے اور جب کوئی بندہ پنشن کی عمر تک پہنچ جائے تو یہاں پر ریاست کا ماں جیسی ہونے کا تصور اور روشن ہو کر سامنے آتا ہے۔پنشن کی عمرمختلف ممالک میں مختلف ہے۔یورپ میں 65 سال مردوں کی، 63سال عورتوں کی ہے۔کینیڈا سمیت کئی ممالک میں ریٹائر منٹ کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔ خصوصی طور پر جو برطانیہ کی بادشاہت کے تحت حکومتیں آتی ہیں۔بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں پر برطانوی بادشاہت اب بھی چلتی ہے۔ ان ممالک میں ریٹائرمنٹ کو آپشن رکھا گیا ہے۔ کوئی ریٹائرہونا چاہے تو وہ 65 سال کے بعد ریٹائر ہو سکتا ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری محکمے کے ملازم کو 65 سے 75 فیصد تنخواہ کا حصہ بطور پنشن دیا جاتا ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی صحت کی تمام تر ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔
کئی ممالک میں پنشنرز کو مصروف رکھنے کے لیے ان کو ان کے گھر کے قریب تر علاقوں میں چار سے پانچ مرلے زمین گارڈننگ کے لیے الاٹ کر دی جاتی ہے، جس میں ایک تو یہ لوگ سبزیاں کاشت کرتے ہیں، دوسرے ان کی مصروفیت کے ساتھ ساتھ تفریح کا بھی ایک ذریعہ ہوتا ہے۔یہ لوگ لنچ کے بعد گھروں سے اپنی گاڑی میں نکلتے ہیں، اپنی اس زمین پر جاتے ہیں، وہاں پر اپنا کاشتکاری کا لباس پہنتے ہیں، اسی جگہ پر ایک چھوٹی سی کٹیا بنائی گئی ہوتی ہے، اس کٹیا میں کوئی کسی،کھرپا اور درانتی جیسے اوزار رکھتے ہوتے ہیں۔ان کو یہ اٹھاتے ہیں، گوڈی وغیرہ کرتے ہیں ،پانی لگانے کی ضرورت ہو تو پانی لگاتے ہیں، سبزیاں بیجتے ہیں اور یہی سے پھر اپنے گھر بھی کھانے پکانے کے لیے لے جاتے ہیں۔کئی لوگ کاروان گاڑی میں اپنے ملک کی سیر کرتے ہیں۔ کاروان گاڑی وہ ہوتی ہے جس میں فیملی کے لیے بیڈ تک لگائے ہوتے ہیں۔ اسی میں واش روم اور چھوٹا سا کچن بنایا گیا ہوتا ہے۔ ہر سرکاری ملازم ریٹائر ہونے کے بعد ایسی گاڑی نہیں خرید سکتا ،جو نہیں خرید سکتے ،ان کے لیے ایسی گاڑیاں کرائے پر دستیاب ہیں۔
سوئٹزرلینڈ میں میرے دوست ہوا کرتے تھے۔وہ انھی دنوں ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ چھ ماہ وزٹ پر روس چلے گئے اور ایک ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک سال امریکہ میں سیاحت کرتے ہوئے گزارا۔پنشنرز جب بہت ہی زیادہ بوڑھے ،لاغراور کمزور ہو جاتے ہیں ،ان کے لیے حکومت کی طرف سے سینئر ہومز بنائے گئے ہیں۔یہ سینئر ہومز سہولیات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے فائیو سٹار ہوٹل سے بھی کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ایک فرد کے لیے ان سینئر ہومز میں دو نرسیں رکھی جاتی ہیں وہ ان عمر رسیدہ لوگوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہیں۔ ایک نرس کی ڈیوٹی آدھے دن کے لیے اور دوسرے آدھے وقت کے لیے دوسری نرس ڈیوٹی پرآجاتی ہے۔ یہ ہوتی ہیں قومیں، یہ ہوتی ہے ریاست جس کو ماں جیسی ریاست کہا جاسکتا ہے۔
قارئین!ہم جب پاکستان ہوا کرتے تھے تو اپنے اطراف اپنے دوستوں اور احباب سے یورپ اور امریکہ کے قصے سنا کرتے تھے اور جب ہمیں یہ بتایاجاتا تھا کہ گورے لوگوں کی اکثریت بڑھاپے میں اپنی اولاد کے ساتھ نہیں رہتی تو ہمیں اس معاشرے اور تہذیب سے گھِن محسوس ہوتی تھی لیکن آج جو کچھ ہماری سائوتھ ایشین تہذیب اور معاشرہ جن راہوں پر چل نکلا ہے اس سے آج پاکستانی، بنگلہ دیشی اور بھارتی والدین کی اکثریت اپنے آپ کو اپنی اولاد کے ہاتھوں غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔کیونکہ یہ دنیا کی ایک مبینہ حقیقت کہ آدمی کتنا بھی مضبوط ہوپچاس سال کی عمر ہونے کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی ’’رَن مرید‘‘ ہو جاتا ہے۔اور اولاد کی جب شادیاں ہو جاتی ہیں تو وہ آدھے ’’رَن مرید ‘‘تو اُسی دن ہو جاتے ہیں۔دراصل سائوتھ ایشین معاشرے میں اولاد کو بڑھاپے کی انشورنس پالیسی سمجھا جاتا تھا اور یہ نظام کافی عرصے تک کارآمد بھی رہا لیکن آج اپنے گرد نگاہ دوڑائیں اور حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو ایسا نظام اور ایسی روایات اب تقریبا ناپید ہو چکی ہیں۔اس لیے اس بات کا ادراک کرتے ہوئے مغربی معاشرے نے آج سے سو سال قبل ہی پنشن اور سینئر اولڈ ہومز کا نظام متعارف کرایا تھا۔آج ہر یورپین اور امریکن سوسائٹی کا فرد اس فکرِ معاش،فکرِ صحت اور بڑھاپے میں فکرِ نگہداشت سے آزاد ہوتا ہے۔کیونکہ اسے پتا ہے کہ بڑھاپے میں اُسے نرسنگ ہومز میں بہترین خدمات اور سروس کے ساتھ رکھا جائے گا۔بہرحال حکومت پاکستان سے التماس ہے کہ سینئر سیٹیزن کے لیے پنشن اور فوڈ اینڈ ہیلتھ سیکورٹی کا نظام مزید بہتر بنایا جائے تاکہ ہم جینے کو سزا نہیں خدا کی عظیم نعمت سمجھیں۔