اتوار ‘ 8 رجب المرجب 1442ھ‘ 21؍ فروری 2021ء
انڈے کب کلو کے حساب سے بکے مریم جواب دیں: اسد عمر
انڈے کلو کے حساب سے بکتے ہوں یا نہیں، عوام کو اس سے سروکار نہیں۔ ہاں البتہ انڈوں کی قیمت سے عوام کو ضرور سروکار ہے۔ جو انڈے سونے کے انڈوں کے بھائو خریدنے پر مجبور ہیں۔ یہ تو شکر ہے اسد عمر نے ایک نیا طنزیہ بیان داغ دیا ورنہ حکومت کے ہر وزیر و مشیر کی تان اس بات پر ٹوٹتی ہے کہ یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں یا حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔ گزشتہ روز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر عمر ایوب نے بڑے زور و شور سے اسی بیانیے کو دہرایا۔ وہ شاید بھول رہے تھے کہ وہ خود بھی سابقہ حکومت میں وزیر تھے ۔مگر اسد عمر لگتا ہے ذرا وسیع المطالعہ ہیں اس لئے وہ اپنے خطاب میں گھسی پٹی باتیں دہرانے کی بجائے اب مخالفین کے جملے پکڑنے کا ہنر آزما رہے ہیں یہ ایک اچھی بات ہے۔ ذرا تبدیلی آنی چاہئے اس خشک سیاسی یکساں بیانیے میں ۔ گزشتہ دنوں مریم نواز کے منہ سے یہ جملہ پھسلا تھا جس میں انہوں نے انڈے فی درجن کی بجائے کلو کے حساب سے بکنے کا ذکر کیا تھا۔ بس پھر کیا تھا ’’مولا دے اور بندہ لے‘‘ اسد عمر نے یہ جملہ بڑی خوبصورتی سے کیچ کرلیا اور مریم نواز کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا۔ ہمارے ہاں اکثر سیاستدان جوش خطابت میں کوئی نہ کوئی جملہ ایسا ضرور کہہ دیتے ہیں جس پر بعد میں مدتوں چٹکلہ بازی ہوتی ہے۔ لوگ لطف اٹھاتے ہیں۔ اب یہ انڈوں کا ذکر بھی کافی دنوں تک مخالفین کی طرف سے ہوتا رہے گا۔ یوں لوگوں کی توجہ اصل بات یعنی انڈوں کی قیمت سے ہٹ جائے گی۔
٭٭٭٭٭
زیرحراست حلیم عادل شیخ کے کمرے سے سانپ نکل آیا
چوہے ، کھٹمل ، لال بیگ اور بچھوئوں کے علاوہ سانپ کا قیدیوں کی بیرکوں میں ، کمروں میں آکر مٹرگشت کرنا ہماری جیلوں میں عام ہیں۔ ان موذی حشرات الارض سے عام طور پر قیدی خود ہی نمٹ لیتے ہیں یعنی اپنے ہاتھوں سے ان کا قلع قمع کرتے ہیں۔ بس ذرا سا شور ضرور برپا ہوتا ہے جس پر نگران سنتری آکر بڑی بے دلی سے پوچھتا ہے کیا ہوا؟ قیدی ڈر کر بتاتے ہیں بچھو یا سانپ ہے تو نگران جمائیاں لیتے ہوئے کہتا ہے بچھو یا سانپ ہی تو ہے کوئی قیامت تو نہیں آئی شور بند کرو۔ یوں خوفزدہ قیدیوں کی آواز بھی بند ہوجاتی ہے۔ اب حلیم عادل شیخ علیحدہ کمرے میں بند تھے۔ انہوں نے بھی ازخود کمانڈو کارروائی کرتے ہوئے اس موذی سانپ کو مار دیا۔ خدا جانے یہ سانپ ازخود وہاں آیا تھا یا اسے کسی نے جان بوجھ کر شیخ جی کو ڈرانے کیلئے بھیجا تھا۔ کوئی اور ہوتا تو خوف سے بے ہوش ضرور ہوجاتا مگر شیخ جی نے نہایت بے خوفی کا مظاہرہ کرکے سانپ کو مار دیا۔ عدالت بھی لگتا ہے گزشتہ روز دل لگی کے موڈ میں تھی اس لئے جج صاحب نے شیخ جی سے پوچھا کہ کیا سانپ کے منہ میں دانت تھے۔ یعنی وہ زہریلا تھا یا بے ضرر۔ اس کا جواب بھلا حلیم عادل کیا دیتے۔ انہیں اس وقت اپنا ہوش نہیں ہوگا ورنہ ضرور سانپ کے دانت چیک کرتے۔ اگر زہریلا ہوتا تو مارتے ورنہ بے ضرر ہوتا تو چھوڑ دیتے۔ کیونکہ بے ضرر سانپ صرف چوہے، چھپکلی وغیرہ کو کھاتا ہے انسان کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
٭٭٭٭٭
یوٹیلیٹی سٹورز پر گھی 26 روپے فی کلو اور کوکنگ آئل 45 روپے کلو مہنگا، بجلی 92 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی سفارش
گزشتہ روز پہلے ہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے بجلی کی قیمت 28 روپے فی یونٹ تک پہنچنے پر زبردست احتجاج کیا۔ سپیکر کے ڈائس کا گھیرائو کیا۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ہوش کے ناخن لیتی اور کچھ عرصہ بجلی کی قیمتوں سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتی مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ لوگ جو پہلے ہی ایک ماہ میں تین بار بجلی کی قیمت میں اضافے پر سیخ پا ہیں۔ اب چوتھی بار اگر اضافہ ہوگیا تو مزید بھڑکیں گے۔ یہ تو واقعی ریکارڈ ہوگا کہ ایک ماہ میں 4 بار بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا گیا۔ ابھی تک عوام کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ مہنگائی کی شرح افزائش کیوں پاکستان کی شرح آبادی میں افزائش کی طرح بے لگام ہوگئی ہے۔ کوئی ٹوٹکا ، کوئی علاج اس پر کارگر ثابت نہیں ہورہا۔ یوٹیلیٹی سٹورز عوام کو سستی قیمت پر اشیاء کی فراہمی کیلئے کھولے گئے مگر اب وہاں بھی مہنگائی کا بھوت ناچ رہا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ غریب اور متوسط طبقے نے یوٹیلیٹی سٹورز جانا ہی چھوڑ دیا ہے جہاں آئے روز کبھی گھی، کبھی آئل، کبھی دال اور کبھی دوسری اشیاء کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئی ہیں۔ اب یوٹیلیٹی سٹورز پر جن نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن آیا ہے اس سے تو صارفین کی سانسیں انکے گلے میں اٹکنے لگی ہیں۔ گھی اور کوکنگ آئل سمیت خشک دودھ وغیرہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا ہے جس سے لگتا ہے حکومت واقعی ملک سے غربت نہیں غریبوں کو ختم کرنے میں مخلص ہے۔
٭٭٭٭٭
مریم نواز کے بعد شیریں مزاری کا لاپتہ افراد کے دھرنے کا دورہ
لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا یہ دھرنا گزشتہ کئی روز سے جاری ہے۔ پہلے تو یہ زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکا البتہ مریم نواز کی طرف سے دھرنے کے شرکاء سے ملاقات دھرنے میں شرکت اور خطاب کے بعد اور بھی بہت سے لوگوں کو خیال آیا کہ اسلام آباد میں صرف اپوزیشن اور سرکاری ملازمین بھی دھرنا دینے نہیں آتے وہاں اور بھی کئی لوگ عدل کی زنجیر ہلانے آتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ یہ عہد جہانگیری تو ہے نہیں کہ زنجیر عدل کی ذرا سی جنبش پر حکمران دوڑتے ہوئے جھروکے میں آئیں اور فریادی کی دادرسی کریں۔ ہاں البتہ حکومت یہ ضرور کرسکتی ہے کہ ان لاپتہ افراد کی چھان بین کرے۔ اگر کوئی دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ ہے اسے بے نقاب کرے‘ جو بیرون ملک فرار ہیں ان کا نام بتائے‘ جو بے گناہ ہیں شک و شبہ میں دھر لئے گئے ہیں انہیں رہا کیا جائے۔ ملک دشمن عناصر پر مقدمات چلا کر انہیں قرارواقعی سزا ملنی چاہئے مگر اس طرح لاپتہ رکھ کر ان کے گھر والوں کو دہری اذیت میں مبتلا کرنا درست نہیں۔ ان کی موجودگی ظاہر ہونے سے کم از کم گھر والوں کو یہ اطمینان تو ہوگا کہ وہ زندہ ہیں۔ اس طرح یہ دھرنے بھی ختم ہوں گے۔ حکومت کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوگا۔ جو لوگ غیرملکی فنڈنگ کیلئے ایسی تحریکیں چلاتے ہیں دھرنے دیتے ہیں ان کو بھی بے نقاب کرنا ضروری ہے تاکہ منفی رویوں کی حوصلہ شکنی ہو۔