بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی
دنیا کا یہ اصول ہے کہ بدلتی رہتی ہے۔ سیاست کے پلڑوں میں وقت کے باٹ ایسے توازن بگاڑتے بناتے ہیں کہ کبھی دائیں طرف جھکاؤ ہوتا ہے تو کبھی بائیں طرف۔ تاریخ کی کتابوں میں کئی کئی سو برس صفحہ پلٹنے پہ گزر جاتے ہیں اور جب یہ برس گزارنے بیٹھو تو نسلیں لگ جاتی ہیں اور ایک قدم غلط اٹھ جائے تو نسلیں بھٹک جاتی ہیں۔ترکی کے صدر طیب اردوغان اپنا دو روزہ دورہ مکمل کر کے جا چکے ہیں۔ ان کا یہ دورہ آج کے حالات کے تناظر میں بہت اہم ہے۔ آج دنیا کے نقشے پہ نظر ڈالیں تو خلیجی ممالک سے لے کرافغانستان تک بارود کا دھواں اور گولیوں کی جھڑی نظر آتی ہے۔پچھلے برس کشمیر کے معاملے پہ بھارتی اقدام اوراب فلسطین کے مجوزہ حل پہ مسلم دنیا کی خاموشی صاف پیغام دیتی ہے کہ اب ہم تھک چکے ہیں۔ نظریات کے لیے لڑنے کے زمانے اور ہوتے ہیں۔ آج، شام سے لے کر یمن تک جہد للبقائ نے عرب دنیا کو اتنا مضمحل کر دیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے داماد کے بنائے مجوزہ نقشے پہ کوئی خاص احتجاج بھی نظر نہیں آتا۔حالانکہ جب اس نقشے کے بالکل الٹ حالات میں امن کی بات کی جاتی تھی تو عرب ممالک نہیں مانتے تھے۔ زمانہ بہت آگے کھسک آیا ہے، کیلنڈر ہی نہیں دیواریں بھی بدل گئی ہیں۔ایسے میں جب طیب اردوعان کے ’وڑن 2023‘ اور عثمانی خلافت کے خاتمے کو سو سال اکٹھے ہی پورے ہونے والے ہیں تو پاکستان ایک بار پھر ایسی جگہ کھڑا ہے جہاں اس کے سامنے دو کشتیاں ہیں۔یہ قریباً وہی وقت ہے جو کہ لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ کے زمانے میں آیا تھا۔ روس یا امریکہ میں سے کسی ایک کو چننا تھا اور ہم نے امریکہ کو چنا۔ آگے جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم تاریخ کے نازک موڑ پہ تو کھڑے ہی رہتے ہیں، اب کی بار ہم خارجہ تعلقات کے دوراہے پہ بھی آ کھڑے ہوئے ہیں۔حجاز، جسے اب سعودی عرب کہا جاتا ہے، پہلی جنگ عظیم کے وقت تک خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ شریف مکہ بوجوہ اس کے دعوے دار تھے مگر ہاتھ یہ آل سعود کے آیا۔پاکستان کے سعودی عرب سے بھی روایتی اچھے تعلقات رہے ہیں۔ کشمیر پہ بھارت کے حالیہ اقدامات کے بعد سعودی عرب کے رویے نے گو عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچائی مگر حکومتی سطح پہ یہ تعلقات شاندار ہی رہے۔ بلکہ اس قدر شاندار رہے کہ سعودی عرب کے دورے کے بعد، وزیر اعظم عمران خان کوالالمپور سمٹ میں وعدے کے باوجود بھی شریک نہ ہوئے۔مبینہ طور پر اس کی ذمہ داری سعودی حکومت پہ ڈالی گئی کہ ان کی طرف سے منع کیا گیا تھا اور پاکستان بوجوہ مجبور تھا۔مگر پھر یہ ہی مجبور پاکستان ملائشیا کا دورہ کرتا ہے اور ملائیشیا کے صدر کو دورے کی دعوت دیتا ہے اور ملائیشیا کے دورے کے کچھ ہی روز بعد ترک صدر کے دورہ پاکستان کی نہایت گرم جوش میزبانی کرتا ہے۔ 2023ء کے بارے میں افسانے زیادہ اورحقیقت چاہے کم ہو لیکن ایک بات واضح ہے کہ مستقبل قریب میں اسلامی بلاک نہ سہی مگر او آئی سی کی طرز پہ چیدہ چیدہ مسلم ملکوں کی تنظیم ضرور بننے والی ہے۔ یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ اس تنظیم کی روح رواں ترکی کے صدر طیب اردوغان ہی ہوں گے۔اس نئی تنظیم یا بلاک سے سعودی عرب کی تحفظات ہمیں خوب نظر آ رہے ہیں۔ یعنی اگر کل کو 2023 سے متعلق افواہیں کوئی شکل اختیار کرتی ہیں تو ہمیں سعودی عرب یا ترکی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ماضی میں ایران اور سعودی عرب کے معاملے میں ایسا ہوا تو ہم نے سعودی عرب کا انتخاب کیا۔ گو پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ایران کے ساتھ نظریاتی طور پہ بھی کھڑی تھی۔ مگر یہ امریکہ سعودی بلاک میں شرکت کا معاملہ تھا۔ اب کی بار ترکی کے پلڑے میں امریکہ کا باٹ نہیں ہے۔سعودی عرب میں تیزی سے لائی جانے والی سماجی اصلاحات بھی کچھ کہانیاں سنا رہی ہیں۔ ترکی کا سیکولر ڈھانچہ اور سعودی عرب کا سلفی نظریہ خاصی حد تک بدل رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو اپنے دوستوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیئے۔خاص کر ماضی کی تحریک خلافت کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیئے۔ ہم نے اپنے کچھ بزرگوں کو مرتے دم تک رومی ٹوپی پہنتے دیکھا۔ یہ ان بزرگوں کا خلافت کے ساتھ جذباتی لگاؤ تھا۔ یہ ہی معصوم فطرت لوگ سعودی عرب کا سکہ نظر آ جاتا تھا تو چوم کر آنکھوں سے لگا لیا کرتے تھے۔پاکستانی عوام اب بھی ایسے ہی ہیں۔ دونوں ہی ملکوں سے پاکستان کے مفادات بھی وابستہ ہیں اور عوام کا بھی دونوں ہی ملکوں کی طرف یکساں جھکاؤ ہے۔ مگر ترکی اور سعودی عرب کے درمیان کشمکش کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ سعودی عرب میں مبینہ طور پہ ترک ڈرامے دکھانے پہ پابندی عائد ہے۔(جاری ہے)