بھارتی ریاستوں کی طرف سے شہریت بل کی مخالفت
شہریت بل کے خلاف عوامی احتجاج پر مودی حکومت بجائے مناسب حل کے ، تشدد پر اتر آئی۔ جلسوں ، جلوسوں اور مظاہروں کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس کو فری ہینڈ دیتے ہوئے نتائج کی کوئی پرواہ نہ کی۔ پولیس نے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں پر بدترین تشدداور طالبات کے ساتھ قابل اعتراض حرکات کیں جس سے کئی طلبہ زخمی ہو کر اسپتال داخل ہوگئے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم پارلیمنٹ ہاؤس تک مارچ کرنا چاہتے تھے لیکن پولیس نے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ پولیس نے اندھا دھند گولیاں برسائیں اور آنسو گیس کا شدید استعمال کیا۔ اس کے باوجود طالب علموں کو آگے بڑھنے سے نہ روک سکے تو پولیس نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ساتھ ان پر بدترین تشدد کیا۔ طالبات کو گھسیٹا گیا اور پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ قابل اعتراض حرکات بھی کیں جس پر ہنگامہ اور بڑھ گیا۔ درجن سے زیادہ طالب علم زخمی ہو کر اسپتال پہنچے جہاں کے ڈاکٹروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان مظاہرین پر زہریلے کیمیکل اسپرے کا استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے وہیں مختلف بیماریوں کا بھی اندیشہ ہیبھارتی حکومت نے دہلی کے شاہین باغ میں متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو فوری طور پر ہٹانے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا مگر عدالت نے اس قسم کا کوئی بھی حکم دینے سے انکار کردیا۔تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ لوگوں کو عوامی شاہراہ کو غیرمعینہ مدت تک کے لیے بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔بینچ میں موجود ایک اور جج جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ کہ وہ حکومت کو سنے بغیر دونوں درخواست کو نہیں سن سکتے۔ یہ درخواستیں وکیل امیت شاہنی اور بی جے پی دہلی کے رہنما نند کشور گارگ نے دائر کی تھیں۔تاہم ان کی جانب سے یہ اشارہ بھی دیا گیا کہ وہ اس احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتے جو ایک ہی جگہ پر غیرمعینہ مدت تک جاری رہے۔
شہریت بل کی مخالفت میںبعض بھارتی ریاستیں بھی پیش پیش ہیں۔ حال ہی میں کیرالہ، راجستھان اور پنجاب کے بعد مغربی بنگال کی اسمبلی نے بھی مودی سرکار کے متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف قرارداد منظور کی جس میں مودی حکومت سے متنازع قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی نے اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہاکہ ہماری حکومت مذہبی منافرت پر مشتمل ایسے کسی بھی قانون پر عملدرآمد نہیں کرے گی جس سے بھارت کا سیکولر چہرہ داغدار ہوتا ہو۔ متنازع شہریت ترمیمی قانون انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھی ہے۔ تلنگانہ کے وزیراعلیٰ چندر شیکھر رائو بھی متنازع قانون کے خلاف قرارداد منظور کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ شہریت قانون میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے پر تکلیف پہنچی ہے۔
مسلمان رکن اسمبلی اسدالدین اویسی نے کہا ہے کہ یہ قانون ہٹلر کے قوانین سے زیادہ برا اور مسلمانوں کو بے ریاست بنانے کی سازش ہے۔ کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ اس بل کی جو بھی حمایت کرے گا وہ ’انڈیا کی بنیاد کو تباہ کر رہا ہو گا۔‘ تاہم بی جے پی کے رہنماؤں اور حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ یہ بل مسلمانوں کے خلاف نہیں۔ شہریت ترمیمی قانون این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ اور دیگر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے معروف اداکار نصیرالدین شاہ، میرا نائیر سمیت تقریباً 300 شخصیات نے اپنے دستخطوں کے ساتھ سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں کھلا خط جاری کیا ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ پر متنازعہ ریمارکس بارے اعتراف کرتے ہوئے بھارتی کانگریس کے سینئر رہنما شسی تھرور نے کہا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ محمد علی جناح جیت گئے بلکہ وہ ابھی بھی جیت رہے ہیں۔ اگر شہریت ترمیمی ایکٹ این بی آر اور این آر سی کو لیڈ کرے گا تو یہ محمد علی جناح کے دو قومی نظریے کے خطوط پر مبنی استوار ہو گا اور اگر ایسا ہوا تو آپ یہ کہہ سکیں گے کہ جناح کا نظریہ مکمل ہو گیا۔ اس قانون کے لاگو ہونے سے جناح کے اس نظریے کو تقویت ملے گی کہ مسلمان ایک علیحدہ ملک کے مستحق ہیں کیونکہ ہندو مسلمانوں کے حق میں نہیں ہو سکتے۔ بھارت میں ظالم مودی سرکار کے مسلم دشمن قانون جناح کے نظریے کی جیت ہے۔بل میں غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دینے کی ترامیم شامل ہیں جس کے تحت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ کانگریس رہنما کپل سبل نے دعوی کیا کہ بل سے آئین کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ متنازعہ بل کی منظوری سے دو قومی نظریہ حقیقت بن جائیگا۔ مودی نے الزام لگایا کہ اپوزیشن پاکستان کی زبان بول رہی ہے۔ سابق وزیر داخلہ چدمبرم نے کہا کہ ذمہ دار حکومتی شخصیت جواب دے۔ پارلیمان کے منہ پر طمانچہ ہے۔ بل میں اسلام کو کیوں شامل نہیں کیا گیا۔ امیت شاہ نے دعوی کیا کہ مسلمان ہندوستانی محفوظ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ کانگریس کے آنند شرما نے کہا کہ کپل سبل بل کی مخالفت کرتے ہیں۔نظر ثانی کریں، تاریخ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔بھارت کا اقلیتیوں کی شہریت کا متنازع ترمیمی بل نہ صرف بھارت میں بلکہ عالمی طورپر تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن اور وزیر داخلہ اسد الزمان نے بھارت کا دورہ کرنا تھا جو بل کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا۔ بنگلہ دیشی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ سٹیزن ایکٹ بھارت کے سیکولر کردار کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ادھر امریکی کانگریس کے رکن آندرے نے بھارت کے متنازعہ شہریت ترمیمی بل پر بیان میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی حیثیت بدلنے کے بعد آج پھر مودی کا ایک اور تباہ کن اقدام دیکھ رہے ہیں۔ مودی کی پارٹی کی تاریخ کے حساب سے یہ کارروائی غیرمتوقع نہیں ہے۔ یہ اقدام بھارت میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش ہے۔ مودی نے اقلیتی مسلم برادری کو نشانہ بنایا جو بھارت کی ثقافت ہے۔ یہ اقدم دو ایٹمی طاقتوں میں تناؤ بڑھا سکتا ہے۔