پاکستان اسٹیل ملز کی بحالی،احتجاج کا نتیجہ کیا ہوگا؟
پاکستان اسٹیل مل پاکستان میں اسٹیل کی مصنوعات اور خام لوہے سے خالص لوہا نکالنے کی صلاحیت رکھنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس ادارے میں اس وقت بھی ہزاروں ملازمین برسر روزگار ہیں،سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیساں کہیں یا کرپشن کا بے قابو جن کا کمال بہرحال اسٹیل مل تباہ ہو ہی گئی۔ذولفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بننے والے ادارے کے قیام کیلئے معاہدہ یحییٰ خان کے دور میں ہی ہوگیا تھا۔روس کے تعاون سے بننے والے ادارے کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کیلئے ایک معاہدہ طے پایہ جس کے تحت ملک میں جس ادارے کو بھی فولاد کی ضرورت ہو اس پر لازم کردیا گیا کہ وہ مال اسٹیل ملز سے ہی خریدے گا اور اگر اسٹیل ملز مانگ پوری نہ کرسکا تو کہیں اور سے خریداری کیلئے بھی اسٹیل ملز سے این او سی حاصل کرنا شرط ہوگا۔اس ادارے کا زوال تو تب ہی شروع ہوگیا تھا جب مشرف دور میں اس معاہدے کو ختم کیا گیا۔ زرداری حکومت میں ادارہ مزید پستی کی جانب گیا لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت آنے کے بعد بھی ادارے کے حالات میں کسی قسم کی بہتری نہ آئی بلکہ ادارے کے حالات پہلے سے بھی بدتر ہوگئے۔مسلم لیگ ن کی حکومت پر مخالفین کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا تھا کہ شریف خاندان اپنے اسٹیل کے کاروبار کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی ملازمین نے اسٹیل ملز کی بحالی اورتنخواہوں کی ادائیگی کے مطالبات کر ڈالے۔جس کی وجہ یہ تھی کہ اسٹیل ملز میں ٹریڈ یونین کے ریفرنڈم کی انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر اسٹیل ملز آیا کرتے تھے اور یہ دعویٰ بھی کیا کرتے تھے کہ حکومت آتے ہی اسٹیل ملز کی بحالی کیلئے کام کیا جائے گا اسی قسم کا دعویٰ عمران خان کی جانب سے بھی کیا جاچکا تھا لہذا اسٹیل ملز ملازمین کو موجودہ حکومت سے خاصی امیدیں تھیں۔تحریک انصاف کی حکومت کے آنے کے بعد بھی اسٹیل ملز کے حالات میں کسی قسم کی تبدیلی تاحال نہیں آئی۔دیر سے ہی لیکن ملازمین کو ملکی خزانے سے تنخواہ ادا کردی جاتی ہے لیکن 6ہزار سے زائد ریٹائرڈ ملازمین تاحال اپنے جائز واجبات کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔تنخواہ ادا کردینا مسئلے کا حل نہیں،آخر کب تک ملکی خزانے سے تنخواہیں ادا کر کے ادارے کو مزید مقروض بنایا جائے گا؟کیا ریٹائرڈ ملازمین کو اسی طرح سے اپنے جائز اور قانونی واجبات کیلئے کبھی اس در تو کبھی اس در پھرنا ہوگا؟اسٹیل ملز کے ملازمین کی رہائشی آبادی پاکستان اسٹیل ٹاؤن کا بھی وہی حال ہوگیا تھا جو اسٹیل ملز کا ہے۔پاکستان اسٹیل ٹاؤن میں صفائی کے ناقص انتظامات دیکھنے میں آتے تھے۔ساتھ ہی گھروں میں مرمت کا کام نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت بھی خراب ہوتی جارہی ہے۔جماعت اسلامی کراچی کی جانب سے اسٹیل ملز کی بحالی اور ریٹائرڈ ملازمین سے اظہار یکجہتی کیلئے احتجاجی کیمپ لگایا گیا۔کیمپ میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان سمیت جماعت اسلامی کی قیادت نے شرکت کی۔اس احتجاجی کیمپ میں اسٹیل ملز کے حاضر سروس اور ریٹارئرڈ ملازین نے بھی حصہ لیا۔تمام مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو بحال کیا جائے تاکہ ملازمین کو مستقل بنیادوں پر تنخواہیں اور سہولیات فراہم کی جائیں اور ریٹائرڈ ملازمین کو بھی عمر کے اس حصے میں در بدر نہ کیا جائے اور ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے انکے واجبات ادا کئے جائیں۔بلاشبہ ان تمام مسائل کا واحد حل صرف اور صرف اسٹیل ملز کی بحالی میں ہے۔اسٹیل ملز کی بحالی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔بحالی کی صورت میں ادارے کو باصلاحیت ملازمین کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا،تجربہ کار ملازمین کی اکثریت یا تو ریٹائر ہوچکی ہے یا ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔اسٹیل ملز کے شعبہ میٹرولوجیکل ٹریننگ سینٹر کی ذریعے نئے بھرتی ہونے والوں کوتربیت دی جاتی تھی۔ ایم ٹی سی سے4500 نئے بھرتی ہونے والوں کوتربیت دینے کا انتظام ہوتا تھا لیکن 2014 سے تربیتی مرکزغیرفعال اوربند ہے۔ اب ممکنہ نئے بھرتی ہونے والوں میں پلانٹ پرکام کرنیکی صلاحیت نہیں ہوگی جب کہ 2020 تک تیزی سے ریٹائرمنٹ کا سلسلہ جاری رہے گا۔اسٹیل ملز کی بحالی ہونے پر مختلف پلانٹس پرکام کرنے کے لیے نئے اور ماہر ملازمین موجود نہیں ہوں گے جس سے ایک بار پھر اسٹیل ملز کا ادارہ بحرانی کیفیت سے دوچار ہو سکتا ہے۔حکومت کی جانب سے ادارے کے انتظامی امور میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کیلئے مختلف لوگوں کو اسٹیل ملز میں لایا جارہا ہے۔واضح رہے کہ آؤٹ سورس ڈیپارٹمنٹ یعنی ایجوکیشن،میڈیکل،ٹرانسپورٹ،اسٹیٹ اور محکمہ مرمت کی بحالی یا فعال ہونے سے ادارہ بحال نہیں ہوگا۔حکومت کا فولاد کا پیداواری پلانٹ بحال کرنا ہوگا۔اس کی بحالی کیلئے حکومت کے پاس بہتر آپشن روس ہی ہے اور روسی وفد کئی بار اسٹیل ملز کا دورہ کرچکے ہیں جو اس بات کی جانب نشاندہی کرتے ہیں کہ روس اب بھی اس ادارے میں دلچسپی رکھتا ہے۔حکومت کبھی قائمہ کمیٹی کو دورہ کرانے اور کبھی پرائیویٹائزیشن کی باتیں کرنے اور اپنی من مانی پارٹی کی تلاش کے بجائے پلانٹ بحالی کیلئے روس سے معاہدہ کرے تو قوی امکان ہے کہ ادارہ پھر سے اپنے پیروں پر کھڑاہوجائے گا ساتھ ہی موجودہ انتظامیہ آؤٹ سورس ڈیپارٹمنٹس کو بحال کرے اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات کرے تو ایک خطیر رقم ان محکموں سے بھی کمائی جاسکتی ہے۔موجودہ حکومت کو اپنے وعدوں کے مطابق اسٹیل ملز کی جانب توجہ دینی ہوگی۔سب سے پہلے حکومت کو ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے واجبات ادا کرنا ہوں گے۔ادارے سے ریٹائرڈ ہونے والے ماہر افراد میں سے بہترین کا انتخاب کر کے ان افراد کو ادارے کی بحالی کا ٹاسک دینا ہوگا۔حکومت کو پہلے مرحلے میں اسٹیل ملز کے ان ڈپارٹمنٹ کو بحال کرناہوگا جو اس وقت مکمل طور پر بند نہیں ہوئے۔آمدنی کے حصول کیلئے انتظامیہ کے پاس ایک راستہ یہ بھی ہے اسٹیل ملز کی ملکیت زمین کو رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کی صورت میں فروخت کرسکتی ہے۔جماعت اسلامی کے احتجاج میں ہزاروں افراد کی شرکت اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ عوام اب ادارے کی بحالی چاہتے ہیں حکومت کو بھی اب سنجیدگی سے کوشش کرنا ہوگی بصورت دیگر اگر عوامی احتجاج شدت اختیار کر گیا توحکومت کیلئے نئی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی۔