ترک صدر طیب اردوان کا دورہ پاکستان اور اس کے دور رس اثرات
ترک صدر رجب طیب اردوان کی پاکستان آمد نے ایک بار پھر پاک ترکی تعلقات کی نئی تاریخ رقم کی، دونوں ملکوں کے عوام میں اخوت و محبت، ملی یکجہتی، مسلم امہ کے لیے خیر خواہی کے عہد کی تجدید کی گئی۔تبدیل ہوتے ہوئے عالمی حالات اور نئی عالمی صف بندی کے تناظر میں ترک صدر کے حالیہ دورہ پاکستان کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔پاکستان کو در پیش اقتصادی چیلنجز اور عالمی صف بندی کے حوالے سے درپیش مسائل میں ترکی کے ساتھ قائم ہونے والے نئے تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔اس موقع پر دونوں ممالک نے جس تعاون کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے وہ کثیر الجہتی ہیں۔اس وقت ضرورت بھی یہ محسوس کی جا رہی ہے کہ پاکستان نئے تشکیل پاتے ہوئے مسلم بلاک میں ترکی کو اپنے ساتھ زیادہ سے زیادہ معاملات میں شریک کرے۔حالیہ دورے میں ترک صدر نے کہا ہے کہ پاکستان کا دکھ ہمارا دکھ، پاکستان کی خوشی ہماری خوشی ہے، ترکی مسئلہ کشمیر کے پرامن اور بات چیت کے ذریعے حل کے موقف پر قائم رہے گا، مسئلہ کشمیر کا حل طاقت یا جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف و حقانیت کے اصولوں سے ممکن ہے، ان کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے74 ویں اجلاس میں اس مسئلے پر حساسیت کا برملا اظہار کیا گیا تھا۔پاکستان اور ترکی کو اسلاموفوبیا سمیت امت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کرنا جاری رکھنا چاہیئے۔ تین سال بعد پاکستان کا دورہ کرنے والے ترک صدر رجب طیب اردوان اپنی اہلیہ کے ہمراہ نور خان ایئربیس پر پہنچے تو وزیر اعظم عمران خان نے ترک صدر اور ان کی اہلیہ امینہ اردوان کا استقبال کیا۔اپنے دورے کے پہلے روز رجب طیب اردوان نے پاکستانی ہم منصب ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی جس میں اسلاموفوبیا اور مسلم امہ کو درپیش چیلنجز کا مقابلے کرنے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے جمعے کے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کشمیر پر ایک مرتبہ پھر پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے لیے کشمیر کی حیثیت وہی ہے جو چناق قلعے کی تھی۔ترک صدر نے خطے میں امن و امان اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی موثر کن کارروائی کی تعریف کی۔ رجب طیب اردوان نے پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا۔ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ انقرہ اور سعودی عرب کے مابین مشرق وسطیٰ میں سیاسی منظر نامے کی وجہ سے کشیدگی، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور آرٹیکل 370 کی منسوخی، اسلاموفوبیا، پاکستان کی معاشی صورتحال اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (اے ایف ٹی ایف) جیسے مسائل کے تناظر میں ترک صدر کا دورہ کئی اعتبار سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔علاوہ ازیں پاک ترک کے مابین تجارتی تعلقات سے متعلق مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) کا اجلاس اور اس میں ہونے والے معاہدے خطے میں نئی تبدیلی کے تناظر میں دیکھے جارہے ہیں۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسلام آباد میں پاک-ترک بزنس اینڈ انویسٹمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہمارے درمیان 80 کروڑ ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے جو ہمارے لیے قابل قبول نہیں، ہماری مشترکہ آبادی 30 کروڑ سے زائد ہے لہٰذا ہمیں تجارت کو اس مقام تک لے جانے کی ضرورت ہے، جس کے ہم مستحق ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم تجارتی حجم کو ایک ارب ڈالر تک لے جانے کے بعد اسے 5 ارب ڈالر تک توسیع دیں گے۔ترک صدر نے کہا کہ ترکی میں پاکستانی سرمائے کی حامل 158کمپنیاں کام کر رہی ہیں، ہم اس طرح کی مزید کمپنیاں دیکھنے کے خواہشمند ہیں، اس وقت ہمارے پاس ایک ماڈل موجود ہے جس کے تحت ہم چند شرائط کے تحت سرمایہ داروں کو ترک شہریت کی پیشکش کر رہے ہیں۔ترک صدر نے بتایا کہ ہم پر 72 فیصد عوامی قرضہ تھا جو ہم 30 فیصد تک لے آئے ہیں، معاشی جاسوسی اور خطے کی صورتحال سمیت تمام چیلنجوں کے باوجود ہم ترقی کر رہے ہیں۔ترک صدر نے خطے میں امن و امان اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی موثر کن کارروائی کی تعریف کی۔انہوں نے کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا کردار قابل تحسین ہے۔علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان دفاع، عسکری تربیت کے شعبوں میں تعاون گہری دوستی کا عکاس ہے۔رجب طیب اردوان نے مقبوضہ کشمیر کی خراب صورتحال پر انتہائی تشویش اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا کردار قابل تحسین ہے۔ اقتصادی اور اسٹریٹجک تعاون کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کی تقریب ہوئی۔ٹی وی، ریڈیو، سیاحت، ثقافت، خوراک، تجارت میں سہولت کاری، پوسٹل سروسز، ریلوے اور عسکری تربیت سمیت دیگر شعبوں میں مفاہمت کی یادداشتوں پر متعلقہ وزارتوں کے وزرا نے دستخط کیئے۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا دونوں ممالک کے مابین مفاہمتی یادداشتوں پر ہونے والے دستخط سے پاک ترک تجارت میں نئے دور کا آغاز ہوگا۔انہوں نے کہا کہ تعلیم، مواصلات، صحت، ثقافت سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کے فروغ سے متعلق 13 معاہدے پاک ترک قریبی تعلقات کا مظہر ہیں۔ترک صدر نے کہا کہ 2009 میں تشکیل پانے والی اسٹر یٹجک تعاون کونسل پاک ترک تعاون میں مثالی کردار ادا کرے گی۔ترک صدر نے کہا کہ دونوں ملک باہمی مفاد کی حامل مختلف صنعتوں میں مل کر کام کر سکتے ہیں اور ہمیں اپنے درمیان کسی بھی تجارتی دیوار کو حائل نہیں ہونے دینا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ ترکی نے سیاحوں کی تعداد ایک کروڑ 30 لاکھ سے بڑھا کر 6 کروڑ 80 لاکھ تک پہنچا دی ہے جس سے اس شعبے میں آمدنی ساڑھے 8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 35 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کے دو روزہ دورے کی سائڈ لائن پر تجارت اور سرمایہ کاری سے متعلق مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس ہوا، جس میں معاہدے کو حتمی شکل دی گئی۔ دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ وہ اپنے تاجروں کی جانب سے صنعتی شعبوں میں مشترکہ منصوبے قائم کرنے اور ای کامرس کے شعبے میں تعاون کے لیے حوصلہ افزائی کریں گے۔اس حوالے سے وزارت تجارت اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی پاکستان (ٹی ڈیپ) نے پاکستان- ترکی بزنس ٹو بزنس (بی ٹو بی) نیٹ ورکنگ سیشن کا انعقاد بھی کیا۔انجینئرنگ، توانائی، سیاحت، تعمیرات، دفاع، آٹوموبائل، کیمیکلز اور آئی ٹی کے شعبوں سے متعلق بی ٹو بی اجلاس ہوئے۔دورہ کرنے والی ترکش کمپنیوں اور ان کے پاکستانی کاروباری ہم منصبوں کے درمیان تقریباً 450 نتیجہ خیز بی ٹو بی اجلاس منعقد ہوئے۔اس تقریب میں پاکستانی مختلف شعبوں، مشہور تجارتی تنظیموں، پی بی آئی ٹی، ٹی ڈی سی پی، پی ٹی ڈی سی سمیت حکومتی تنظیموں سے 200 سے زائد معروف تاجروں نے شرکت کی جبکہ ترکی کی جانب سے ٹم سیڈ، ڈی آئی ای کے اور پاکستان-ترکی فرینڈ شپ ایسوسی ایشن نے شرکت کی۔ دونوں ممالک نے قریبی تجارتی تعلقات کے بارے میں 2004 میں بات چیت کا آغاز کیا تھا لیکن متعدد رابطوں کے باوجود آزادانہ تجارتی معاہدے پر پہنچنے میں ناکام رہے تھے اور کچھ شعبوں کے افتتاحی اختلافات کے باعث گزشتہ برس باضابطہ طور پر بات چیت کا اختتام ہوا تھا۔ ترکی شپنگ (ترسیل)، روڈ انفرا اسٹرکچر نیٹ ورک اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز میں مہارت رکھتا ہے جو پاک چین اقتصادی راہداری اور دیگر ٹرانزٹ روٹس کے لیے مدد دے گا۔دونوں ممالک میں دفاعی صنعت، فوڈ پراسیسنگ اور پیکنگ، آٹوموبائل انڈسٹری اور آٹوپارٹس، گھریلو آلات، تعمیراتی سامان، ٹیکسٹائل، چمڑے کی مشینری اور تیار مصنوعات، کھیلوں کا سامان اور جراحی آلات میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ترک صدر نے ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں میں پاکستان کی بھرپور حمایت کرنے کا پختہ یقین دلایا اور کہا میں بزنس مینوں کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ یہاں آیا ہوں۔ ہم ایک بار پھر پاکستان کے درخشاں مستقبل اور معیشت پر اپنے اعتماد کی تائید کریں گے۔ پاکستان کے 22 کروڑ اور ترکی کے8 کروڑ30 لاکھ عوام شانہ بشانہ کام کرتے ہوئے باہمی اقتصادی تعلقات کو حق بجانب سطح تک پہنچائیں گے۔ترک کمپنیاں پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہیں، دونوں ملک ٹرانسپورٹیشن، صحت، تعلیم، توانائی کے شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں۔ترک صدر نے کہا آج پاکستان اور ترکی کے تعلقات جو سب کے لیے قابل رشک ہیں، دراصل تاریخی واقعات ہی کے نتیجے میں مضبوط اور پائیدار ہوئے ہیں۔صدررجب طیب اردوان نے اسلاموفوبیا کی لہر، مسلمانوں کے خلاف نسل پرستانہ حملوں پر تشویش ظاہر کی جب کہ دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستانی قوم کشمیر و فلسطین پر ایک ہے۔ اب کوشش اور امید کرنی چاہیئے کہ ترک صدر کا یہ دورہ ملکی سیاست، معیشت، سفارت اور خطے کے لیے امن وسلامتی، معاشی ترقی، ملی یکجہتی اور قومی اتفاق رائے کا وسیلہ بن جائے، قومی اتفاق رائے کے اس جذبے اور زریں موقع کو قائم ودائم رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ترکی کو درپیش چیلنجز کے پس منظر میں پاکستان نے ترکی کی ہر سطح پر حمایت کا اعلان کیا۔مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ عالمی تنازعات پر پاکستان اور ترکی کا یکساں موقف ہوتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے سیاسی حمایت سے متعلق کہا کہ ہم ترکی کی عالمی سطح پر مکمل حمایت کرتے ہیں اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں انقرہ نے ہماری حمایت کی جس پر ان سے اظہار تشکر کرتے ہیں۔ترک صدر کا حالیہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اس دورے کے دوران دونوں ممالک نے محض تجارت تک اپنے تعاون کو بڑھانے پر زور نہیں دیا بلکہ عالمی سیاسی صورتحال اور مسلم بلاک کے حوالے سے دونوں ممالک کے مشترکہ کردار کے حوالے سے بھی اہم امور پر اتفاق رائے پیدا کیا گیا ہے جس کے دور رس اثرات رواں دہائی میں نمایاں ہو کر سامنے آجائیں گے۔