گاہے گاہے باز خواں آں قصۂ پارینہ ر ا قسط17
(گزشتہ سے پیوستہ)مزید یہ کہ جو Patriot Act ہے وہ 11 ستمبر کے واقعات کے تناظر اور جواب میں نہیں لکھا گیا تھا--- یہ اُس تاریخ سے بہت پہلے تیار کیا گیا تھا،اس کے لاگو کرنے کا بہانہ البتہ11 ستمبر کے واقعات تھے۔امریکی حکومت کے اہلکار ہمیں یہ باور کراتے رہے کہ یہ 342 صفحات پر مشتمل نازک اور پیچیدگی کی حامل دستاویز مبینہ طور پر 11ستمبر کے بعد صرف ایک ماہ سے کچھ ہی زیادہ عرصے میںتیار کی گئی ۔یہ مشکل کارنامہ سرانجام دینے کے لیے بہت زیادہ غور وخوض درکار تھا، جو حیرت ہے صرف ایک ماہ میں انجام پا گیا جب کہ پندرہ مزید لمبے لمبے ایکٹ اور ان کی ترامیم کے دیگر قوانین بھی تیار ہو رہے تھے۔(دیکھئیے)Doreen Millerڈورین ملرHigh Treason in the U.SGovrnment دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اکسانے والے اور اس کا اسکرپٹ لکھنے والے ، جن کا اعتقاد جدید ٹیکنالوجی (اور پراپیگنڈہ) پر ہے ، ہر کسی کو، امریکنوں اور غیر امریکنوں ،سب کو، غلام بنانے کی دھن میں مگن ہیں اورخود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے ہیں ۔ لیکن وہ اس حقیقت کو پسِ پُشت ڈال دیتے ہیں کہ وہ سچے امریکی جواپنی خودی اور آزادی کو اپنی بہترین قدر وں میں سے ایک مانتے ہیں(اور ایسے امریکن بے شمار ہیں) جب اُن کی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ دراصل ہو کیا رہا ہے توممکن نہیں کہ وہ بغیر مقابلے کے ہار مان لیں ۔ یو ایس اے : ایک دہشت گرد ریاست: بہت سے لوگ اب بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ ٹوئن ٹاورز اور پینٹا گان پر حملے امریکہ سے نفرت کرنے والے عرب دہشت گردوں نے کیئے تھے ۔ جارج ڈبلیو بُش نے تو اپنے معمول کے سفلہ پن (idiotic fashion )میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ عرب دہشت گردوں کو امریکہ سے اس لیے نفرت ہے کہ ’’امریکہ آزاد ہے‘‘۔’’امریکہ ایک جمہوریت ہے ‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ ناں۔امریکہ اپنی ان خصوصیات کی وجہ سے ضرور سراہا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب امریکہ سے جو نفرت کی جا رہی ہے وہ اس بنا پر ہے کہ دیگر ممالک میں ایک طویل اور ناقابلِ برداشت مداخلت اور تسلط اور اُن ممالک کے عوام کو مفلس کر دینا ہی اصل میں امریکہ سے نفرت کا باعث ہے۔امریکہ خوب اچھی طرح دنیا بھر کی نفرت سمیٹ چکا تو حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے اپنے پلان کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا ۔اس لیے نہیں کہ امریکہ بہت طاقت ور ہے بلکہ اس لیے کہ وہ یہ طاقت جس طریقے سے استعمال کرتا ہے وہ طریقہ قابلِ نفرین ہے۔امریکہ سے نفرت وہ کرتے ہیں جو عالمی یکجہتی کے دشمن ہیں۔جو امریکہ کو دنیا میں امیر اورغریب کے درمیان ایک خوفناک تفاوت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔لکھو کھا عرب امریکہ سے نفرت کرتے ہیںکیوں کہ وہ اسرائیل کے عرب علاقوں پر تسلط کی پشت پناہی کرتا ہے اور فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کو شہ دیتا ہے۔ امریکہ سے لاتعداد مسلمان نفرت کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے دو مقدس ترین شہروں پر اسرائیل کے تسلط جمانے کی کوششوں میں اُسے اسرائیل کا مدد گار سمجھتے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کے لا تعداد لوگ امریکہ سے نفرت کرتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اُن پر مظالم ڈھانے والوں کا طرف دار ہے۔گیارہ ستمبر 2001 تک ۔۔۔۔ امریکنوں کو یہ وہم ہو سکتا تھا کہ اس تمام تباہی کا تعلق دور دراز جگہوں، سمندروں کے اُس پار صرف اوروں کے ساتھ ہے ، اُن کے محفوظ آرام دہ گھروں ، پُر آسائش زندگیوںتک اس کی آنچ نہیں پہنچے گی۔ ناں۔اب نہیں۔ ملاحظہ ہو:Un Avnery: Twin Towers امریکہ کے زیادہ تر لوگ اپنے حکومتی سیاست دانوں کے جرائم کی شدّت سے واقف ہی نہیں لیکن کیا ایک نمائندہ جمہوریت میں، جیسی کہ مبینہ طور پر امریکہ میں رائج ہے، لوگ اپنی حکومت کے اعمال اور ذمہ داری سے مُبرّا ہو سکتے ہیں؟آخر کب تک وہ اپنی حکومت کو اجازت دیتے رہیں گے،جن کے رہنما وہ خود منتخب کرتے ہیں،کہ ا ُن کی حکومت ایک تباہی کے بعد دوسری بربادی لاتی رہے اور اُسی لمحے وہ یہ بھی کہتے رہیں کہ لوگ خود تو معصوم ہیں، ان غَلَط کاریوں سے پاک ہیں؟ایپوکلیپس (بدی پر نیکی کی فتح )کے اُن چار گھڑ سواروں کی طرح نامعلوم کامی کازی(جاپانی لفظ جس کا معنیٰ’ مقدس ہوا‘ ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں اُن جاپانی پائلٹوں کو کہا جاتا تھا جو خود کُش بمبار تھے اور اپنے ہوائی جہازوں کو دشمنوں کے بحری جہازوںسے کریش کر دیتے تھے) کی طرح چاربڑے جہاز دندناتے ہوئے آئے اور امریکی دنیا کے دو نشانات، وال ا سٹریٹ اور پینٹاگان کی طرف لپکے۔ وہ کوئی بھی ہو سکتے تھے ۔۔۔کوئی بھی جوجڑواں بلند و بالا دیوتاؤ ںکے ڈالر کے نوٹ پربنے اشارات کو رَد کرتے ہوں، جوM-16 طیاروں کو رَد کرتے ہوں، جو اسٹاک مارکیٹ سے نفرت کرتے ہوں، جو دنیا کے دیگر ممالک میں در اندازی سے نفرت کرتے ہوں، جو’ امریکہ امریکنوں کے لیے ‘کا خواب دیکھتے ہوں، جودنیا پر چھا جانے کے اقدامات کی حمایت نہ کرتے ہوں۔۔۔۔۔ جرمنوں کو ڈریسڈن کا قتلِ عام یاد ہو گاجب لاکھوں پُر امن مہاجرین کو امریکن ایر فورس کے ہاتھوں جلا کر خاک کردیا گیا۔ جاپانیوں کو ہیروشیما اور ناگاساکی کا لاکھوں انسانوں کا چند ہی لمحوں میں خاکستر ہونا بھی بھولا تو نہ ہو گا، عرب دنیا ،عراق اور شرقِ وسط میں حالیہ رینگتا ہوا قتلِ عام ہر وقت بھگت رہی ہے، ویت نام میںلکھو کھا ایشینز، کمبوڈیا کی بمباری میںلاؤس میں سی آئی اے کے آپریشنز۔ یہ سب، لاکھوں نہیں کروڑوں کے قتلِ عام ساری دنیا کو یاد ہیں۔۔۔۔تو اُن چار جہازوں کے سوار کوئی بھی ہو سکتے تھے۔جس کا گھر کسی بینک نے چھین لیا ہو، جو اپنے کام سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو، جو مستقلاً بے روز گار ہو گیا ہو۔جو یہودی مظالم کا شکار ہو رہا ہو۔امریکہ کو چاہئیے کہ وہ اپنی وال سٹریٹ اور پینٹاگان پر دردناک حملوں کو اپنے پچھتانے کے لیے آخری وارننگ سمجھے ،اپنے مُشیروں کو بدلے اور پوری دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کا نئے سرے سے برابری کی بنیاد وں پر جائزہ لے ۔ بہتر یہ ہے کہ امریکہ اپنے میڈیا اور سرمائے پر چھائے یہودی سفید پوشوں کی قبیحہ حرکات کا جائزہ لے اوعالمی سطح پر محبوب ، اپنے کام سے کام رکھنے والے کسی والٹ وہٹمین ، کسی تھامس ایڈیسن، ہنری فورڈ اور ابراہام لنکن کا انتظار کرے۔(دیکھئیے)Israel Shamir: Orient Express ’’پچھتاوا‘‘ ایک انتہائی مناسب اصطلاح ہے۔ایک عرصے سے امریکی ریاست اخلاقی طور پرکرپٹ(بد معاش؟) ہو چکی ہے۔اگلے کچھ عرصے میں یا اگر وقت ہے تو امریکہ( اور کسی حد تک یورپ بھی) کو نہایت ہی غایت سے اپناجائزہ لینا چاہئیے۔ امریکیوں نے اپنے بارڈر سے باہر کے حقائق کو درخورِ اعتنا سمجھنا چھوڑ رکھا ہے۔(اُن کو صرف سپورٹس کے مقابلے اور اگلی چھٹیوں میں ہمیں کس پُر فضا مقا م پر جانا ہے!سے ہی دلچسپی ہے)اس میں بھی اکثر وہ اپنے تفریح کے مقامات خود ہی تخلیق کر لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔جو کچھ وہ نہیں دیکھنا چاہتے اُسے وہ کسی قابل ہی نہیں سمجھتے۔امریکن اپنے آپ میں جذب ہو چکے ہیں۔ نہ تو وہ جانتے ہیں اور نہ ہی جاننا چاہتے ہیں کہ اُن کی حکومت کی پالیسیوں اور اعمال کی وجہ سے اربوں اُن لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں جو امریکہ میں نہیں رہتے۔ اُن پالیسیوں اور حرکات کی وجہ سے کروڑوں انسان عالمی سطح پر موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ایسی بیماریوں سے مررہے ہیں جو قابلِ علاج ہیں۔ ( جیسے ملیریا وغیرہ) معاشی، سماجی اور تعلیمی غربت اور جو لوگ امریکی حمایت یافتہ جبر و استبداد کی حکومتوں کی وجہ سے انسانی حقوق کی عدم دستیابی کی وجہ سے پوری دنیا میں تباہ ہو رہے ہیں ۔ اس سب کی وجہ سے بھی امریکہ سے نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ خاص طور پربرطانوی حکومت بھی اپنی امریکہ کی کاسہ لیس پالیسی کی وجہ سے قابلِ مذمت ٹھہرتی ہے۔(جاری ہے)