موجودہ IGP پنجاب کے متعلق سنا ہے کہ وہ انتہائی فرض شناس، بے خوف، ایماندار اور قانون کی عملداری پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ سفارش وغیرہ کو کم ہی اہمیت دیتے ہیں پھر وہ روٹین میں تعینات نہیں ہوئے بلکہ اپنے صاف کردار کی خصوصیت کی بنیاد پر اس عہدہ پر تعینات ہوئے۔ اس اُمید کے ساتھ کہ وہ صوبے میں لاقانونیت، بدامنی، قتل و غارت، راہزنی، ڈکیتی،فراڈ ، اغواء کی بڑھتی ہوئی وارداتیں کرنے والوں کی سرکوبی کریں گے اور معاشرے کاسکون بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔یقینا وہ اپنے مشن میں کامیاب بھی ہوں گے کیونکہ خلوص، نیک نیتی اور عزمِ صمیم ہی ہر کامیابی کی کلید ہے۔ویسے تو اُن کے فرائض کی درجہ بندی نہیں کی جا سکتی کیونکہ فرض ہی اہم ہے۔ لیکن ایک حالیہ افسوسناک واقع جو کہ ایک SSP کے نام منسوب کیاجا رہا ہے اُس نے پولیس کی شہرت کو دھچکا لگایا ہے۔
الزام یہ ہے کہ اُن کی کسی کے ساتھ کاروباری شراکت تھی۔ پرائیویٹ ریسٹ ہائوس کرایہ پر لیا گیا تھا جس میں تمام خرافات ہوتی تھیں جن کا معاشرے کے کسی فرد سے سرزد ہونا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر ایسے گھنائونے جرائم میں خود وردی والے قانون کے محافظ ہی ملوث ہوں تو یہ یقینا پولیس کے محکمے کے لئے نیک فال نہیں۔
پنجاب پولیس کے متعلق یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ یہ فورس جرائم کی بیخ کنی اور پوشیدہ سے پوشیدہ ارتکابِ جرم اور حقائق سے پردہ اُٹھانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ انکی ایک بہت بڑی تعداد قابل، محنتی اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں انتہائی مخلص ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر پنجاب کی پولیس چاہے تو لوگوں کے سانس تک گِن سکتی ہے۔ سابق آئی جی قمر عالم صاحب نے مجھے بتایا کہ ہم جاپان میں تربیت پر گئے تو وہاں میزبانوں سے پوچھا کہ کیا یہاں جرائم پیشہ لوگ ہوتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا بالکل ہیں اور پھر ہماری خواہش پر ہمیں ایسے لوگوں کو دکھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔ لیکن بات ہو رہی تھی پاکستانی پولیس کی۔ یہاں پولیس میں جرائم پیشہ لوگوں کے سرپرستوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہے۔بڑے لوگوں کے ڈیروں اور ویرانوں میںاُنکے عقوبت خانے ہیں جہاں پرائیویٹ ڈیلنگز، تشدد اور بلیک میلنگ ہوتی ہے اور لوگوں کے سروں کی سپاری لی جاتی ہے۔ماضی میں احتیاط کا یہ عالم تھا کہ بینکوں کے خاص سٹاف کی ڈیوٹی، مشہور قمار خانوں، ریڈ لائٹ ایریاز اور دیگر بدنام جگہوں کی خفیہ سٹاف رپورٹیں لاتا تھا کہ کون وہاں کا رَسیا ہے۔ یہاں تک کے لوگوں کے پہناوے پر نظر رکھی جاتی تھی کہ کون اپنی حیثیت سے بڑھ کر رہ رہا ہے۔ پھر انکی گوشمالی ہوتی تھی۔ اب تو ترقی کا زمانہ ہے۔ باپ کو بیٹے کا پتہ نہیں اور بیٹے کو باپ کا پتہ نہیں۔ وردی والوں کی خفیہ زندگی کے متعلق انکے افسران کا باخبر رہنا محکمے کی صحت کیلئے انتہائی ضروری ہوتا ہے ورنہ اندھیر نگری مچ جاتی ہے۔شراب اور شباب کی محفلیں کن افسروں کے اعزاز میں ہوتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ…ع
’’ منجھی تھلے ڈانگ پھیر ہی لی جائے‘‘
آئی جی صاحب سے درخواست ہے کہ ذرا خفیہ طریقے سے ایسے عقوبت خانوں، مافیاز، پرائیویٹ ریسٹ ہائوسز، ہوٹلوں، منشیات فروشوں، قحبہ خانوںاور قمار بازی کے اڈوں کا پتہ چلائیں کہ ان کا سرپرست کون ہے۔کتنے پولیس والوں کی کتنی بے نامی پراپرٹی ہے۔ کتنی شادیاں کی ہوئی ہیں اور اُن کا معیارِ زندگی کیا ہے۔ اُن کی کارکردگی کیا ہے پھر اُن کے خلاف ایکشن لے کر اپنے محکمے کو صاف کرنے کی کوشش کریں۔ معمولی مجرموں سے جیلیں بھری ہوئی ہیں۔ کوشش کریں کہ ہر تھانے میں ایک مجسٹریٹ صاحب کی عدالت ہو وہ اُسی دن اُس کیس کی شنوائی کریں۔ چھوٹے موٹے کیسوں میں ملوث لوگوں کی سرزنش کر کے وہیں صلح صفائی کروائیں۔ سخت جرائم کی بھی فوری شنوائی کر کے جزا یا سزا کا فی الفور فیصلہ کریں۔پولیس کا اپنا انٹرنل TV کا نظام ہو جس کا کنکشن ہر تھانے میں ہو۔ جو بھی واردات ہو اُس جرم اور جائے واردات کی فوٹیج اور ملزموں کے متعلق تفصیلات تمام تھانے کے عملے کی نظر سے گزر جائے تاکہ سب الرٹ ہو کر اس جرم میں ملوث لوگوں کو ڈھونڈ نکالنے میں مددگار بنیں۔کسی بھی ملک کی شکل و صورت نکھارنے یا بگاڑنے میں وہاں کی ٹریفک، جرائم، امن و امان کی صورت حال اور عوامی رویے بیرومیٹر کا کام کرتے ہیں۔ اپنے ملک کے حسن کو نکھارنے کے لئے ہم سب کو جذبہ حب الوطنی، ایمانداری اور خلوص کے ساتھ قانون کی حکمرانی کے لئے عمل پیرا ہونا ہو گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024