چار دانگِ عالم بالخصوص پاکستانی سوشل میڈیا پر اس بات کا خوب چرچا ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں آسٹریلیاء میں نہ بجھنے والی آگ سے کروڑوںجانور ہلاک ہو گئے۔ یہ ہیبت ناک آگ امریکہ کی ریاست میری لینڈ سے سائز میں دوگنی تھی جس نے ہزاروں مکانات کو بھسم کر دیا۔ 6 جنوری کو ایک خبر موصول ہوئی کہ آسٹریلیاء کے مسلمانوں نے غیر مسلموں کے ساتھ ایک پارک میں نمازِ استسقاء کا اہتمام کیا اور اس کے ساتھ ہی اللہ ذوالجلال نے بارانِ رحمت کا نزول فرما کر آگ کو ٹھنڈا کر دیا۔
دوسری جانب جنوری کے اوائل میں بھارت میں رام مندر کی تعمیر کیلئے شدت پسند ہندئوں کی انتھک سعی کے باوجود دیو ہیکل بلڈوزروں کے انجن فیل ہونے کے مناظر نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ مستری، مکینک، انجینئرز نے اللہ کی قدرت کے آگے ہار مان لی۔ کئی پنڈت سربسجود ہو گئے کہ یہ سحر نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ ہی چائنہ میں کرونا وائرس کی وباء سے انٹرنیشنل ایمرجنسی کا نفاذ ہو گیا۔ چین کے محکمہ نیشنل ہیلتھ کے مطابق ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 1873 تک پہنچ گئی ہے۔ چینی ماہرین کی ریسرچ نے یہ حقیقت آشکار کی کہ کرونا وائرس سے بچنے کا واحد حل ’’وضو ‘‘ ہے۔ کھانے پینے میں پاکیزہ خوراک کا اہتمام کیا جائے جسکا حکم اسلام نے دیا ہے۔ چائنہ سے خبریں یہ موصول ہو رہی ہیں کہ لوگوں نے وبائی قہر سے بچنے کے لیے وضو کے طریقے سیکھنے کیلئے قرآن کا مطالعہ شروع کر دیا ہے۔ گھروں سے باہر نکلتے وقت چینی باشندے حفظِ ماتقدم کے طور پر اللہ واحد کی پناہ میں اپنی سپردگی کرتے ہیں۔ 5 سے 6 روز قبل روسی پائلٹ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ گرِتے ہوئے جہاز کو مسلمان مسافر کے دو نفل نے بچالیا۔ نماز کا معجزہ دیکھ کر پائلٹ مسلمان ہوگیا۔ غیر مسلموں پر اسلام کی حقانیت کی دھاک مزید بیٹھ گئی ہے۔ یورپی ممالک میں انتہائی سرعت کے ساتھ یہ موضوع ٹاپ ٹرینڈ بن رہا ہے ’’کہ کیا اسلام واقعی سائینٹفیک دین ہے جو عقل سلیم کو جھنجوڑتا ہے، معاملات کا معقول حل پیش کرتا ہے؟ ‘‘
مغربی سراسیمگی کے عالم میں ڈاکٹر مورس بوکائیے کی کتاب ’’بائبل قرآن اور سائنس ‘‘کی مطالعہ بینی میں محوہیں۔ جس میں انہوں نے اسلام پر ریسرچ کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا تھا: ’’تخلیق کائنات، ارتقائے عالمِ ارضیات، زمین پر حیات، انسانی تاریخ بچے کی شکم مادر میں تخلیق علم حیوانات علمِ نباتات کسی بھی سائنس کے بارے میں قرآن حکیم ایک جگہ بھی ایسی بات نہیں کہتا جو ثابت شدہ سائنسی تحقیق کے خلاف ہو‘‘۔ اس وقت ہمارا معاشرہ ایک منتشر معاشرہ ہے کوئی بھی برائی ایسی نہیں جو ہمارے معاشرہ میں موجود نہ ہو۔ قوم لوط ایسی قوم تھی جس میں مرد، مردوں کے ساتھ بدکاری کرتے تھے۔ اللہ نے زلزلے کے ساتھ دھماکہ، بجلی، گیس اور آتش زدگی سے انہیں تباہ کر دیا۔ ہمارے مستقبل کے معمار بچے اور بچیاں اس قبیح درندگی سے محفوظ نہیں۔ بچے جو کہ کھیلتے کودتے ہیں وہ گھروں میں خوف کے مارے محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
حضرت شعیبؑ کی قوم ذخیرہ اندوزی، ناپ تول میں کمی کے باعث ہلاک ہو گئی۔ عمدہ چیزں بتا کر گھٹیا مال بیچنا اس قوم کا وطیرہ تھا۔ بیوپاری پیسوں میں سکوں کو گھٹا کر دیتے تھے۔ کساد بازی، چور بازاری عروج پر تھی۔ پس ایک چنگھاڑ نے انہیں پکڑ لیا گویا کہ وہ اپنے دیار میں کبھی آباد ہی نہ تھے۔ قومِ شعیبؑ سے اپنے حالات کا موازنہ کچھ مختلف نہیں ہے۔ ذخیرہ اندوز مافیا سر گرم ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹی فعال نہیں۔ منافع خور مصنوعی بحران پیدا کر لیتے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں آٹے کا بحران پیدا کیا گیا۔ اشیاء میں ملاوٹ ہی ملاوٹ ہے۔ پلاسٹک کے انڈے مارکیٹ میں لائے جارہے ہیں۔ ایکسپائر اشیاء کا لیبل ہٹا کر نیا لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ قومِ عاد اور ثمود کو طاقت ور آندھی اور طوفان کے ذریعے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔ اُن کا گناہ یہ تھا کہ انکے جابر وڈیرے کمزور لوگوں پر ستم ڈھاتے تھے۔ ہمارے ہاں بھی کمزوروں پر کوئی رحم نہیں کیا جاتا۔ بھٹہ مالکان کی ہی مثال لیجیے کہ معمولی قرضہ دے کر بھٹہ مزدوروں کو خرید لیتے جاتا ہے اور جب اُن سے قرض کی واپسی کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو مزدوروں کا جواب غربت کے باعث نفی میں ہوتا ہے۔ کبھی گائوں کے چوہدری ملازمین پر وحشی کتوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اب صورتِحال یہ ہے کہ ہم جہالت کے عمیق غار میں اوندھے منہ پڑے ہیں اسلام پر ریسرچ کو ہم شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ ہماری دینیات کی تحقیق صرف اور صرف فیس بک کی پوسٹ تک محدود ہو کر رہے گئی ہیں۔ ہم سہل چیزوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ اگر ہمارا ایمان معجزات پر ہے تو اللہ کے عذاب پر کیوں نہیں ؟ ’’بس اسی چیز کا حزن ہے‘‘!!!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024