میونخ سکیورٹی رپورٹ میں پاکستان ‘ بھارت ایٹمی جنگ کی صورت میں 12 کروڑ افراد کی فوری ہلاکتوں کا خدشہ
میونخ سکیورٹی رپورٹ مجریہ 2020ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین جوہری جنگ کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر یہ جنگ ہوئی تو 12 کروڑ سے زائد لوگ فوری طور پر ہلاک ہو جائینگے۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر باور کرایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کوئی واقعہ ہوا توپاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے جس سے پوری دنیا متاثر ہوگی اور 12 کروڑ سے زائد افراد کی زندگیاں لمحہ بھر میں ختم ہو جائیں گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلوامہ واقعہ کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھی ہے جس کے باعث جنگ کے خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں جو ممکنہ طور پر ایٹمی جنگ ہوگی‘ 100 سے 150 ایٹمی ہتھیار استعمال ہو سکتے ہیں جن سے 36 ٹن کاربن کا اخراج ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق ان ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے زمین کے درجہ حرارت میں دو سے پانچ ڈگری کمی آئیگی جو اس کرۂ ارض پر تباہ کاریوں پر منتج ہوگی۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مودی سرکار کے پیدا کردہ جبر کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 5اگست 2019ء کے بھارتی غیرقانونی اور غیرانسانی اقدام کے بعد اب تک کشمیری عوام کرفیو میں ہیں اس لئے عالمی برادری کشمیریوں کیلئے جبر کی یہ فضا ختم کرانے کیلئے کردار ادا کرے اور اقوام متحدہ کشمیری عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کرائے۔ انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ کے آل پارٹیز پارلیمانی کشمیر گروپ سے ملاقات کے دوران وفد کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا جبکہ وفد کی سربراہ ڈیبی ابراہمز نے بھارت سے اس امر کا تقاضا کیا کہ وفد کو مقبوضہ کشمیر جا کر وہاں کی صورتحال کا جائزہ لینے دیا جائے۔ انکے بقول انسانی حقوق کا احترام اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق تمام اقوام پر لازم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے بقول اگر صورتحال معمول پر ہے اور ہندوستان کچھ چھپا نہیں رہا تو پھر ہمیں مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دے۔ انہوں نے باور کرایا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا تمام ممالک کی ذمہ داری ہے۔ ہم اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ برطانوی حکومت اس مسئلہ پر بات کرے۔ لاک ڈائون کے باعث کشمیری عوام مشکل صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا میں جتنی بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار بشمول ایٹم بم اور ایٹمی میزائل موجود ہیں‘ اسکے تناظر میں کسی بھی ملک کو کسی دوسرے ملک کے ساتھ جنگ کا رسک نہیں لینا چاہیے کیونکہ یہ جنگ لامحالہ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو گی جس سے کرۂ ارض پر موجود کسی بھی ذی روح اور دوسری کسی بھی چیز کا کچھ نہیں بچے گا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں اسی تناظر میں اسکے رکن ممالک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی باہمی تنازعہ کے تصفیہ کیلئے ایک دوسرے کیخلاف طاقت استعمال نہیں کرینگے۔ پرامن بقائے باہمی کا آفاقی اصول بھی اسی نکتۂ نگاہ سے وضع کیا گیا کہ جنگ و جدل سے علاقائی اور عالمی تباہی کی نوبت لانے سے بچا جائے۔ یقیناً اس کا ادراک بھی دوسری جنگ عظیم میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر برسائے گئے ایٹم بموں سے ہونیوالی تباہی سے ہی ہوا تھا جس میں اس وقت کی نمائندہ عالمی تنظیم لیگ آف نیشنز کی بین الریاستی تنازعات کے تصفیہ کیلئے ناکامی بھی کھل کر سامنے آئی چنانچہ ریاستوں کو جنگ و جدل پر منتج ہونیوالے باہمی تنازعات سے مؤثر طور پر بچانے اور ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کے احترام کے تقاضے نبھانے کیلئے 27 اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کی شکل میں ایک نئے نمائندہ عالمی ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں بطور خاص یواین چارٹر وضع کرکے پرامن بقائے باہمی کا اصول اس کا محور بنایا گیا مگر یہ اقوام عالم کی بدقسمتی ہے کہ اقوام متحدہ بھی اپنے چارٹر کی روشنی میں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کیلئے کوئی مؤثر اور عملی کردار ادا نہیں کر سکا جو آج عملاً امریکی مفادات کے تحفظ کا ضامن عالمی ادارہ بن چکا ہے۔
امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی آزمانے کے بعد اس ٹیکنالوجی کے حصول اور تیاری میں کوئی کمی نہیں آنے دی اور اپنے تئیں خود کو ایٹمی جن کا درجہ دے دیا اور پھر اس نے کسی بھی ملک کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول اپنی منشاء کے تابع کرلیا چنانچہ جس ملک کی جانب سے بھی امریکی منشاء کیخلاف ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی کوشش کی جاتی تو امریکہ اقوام متحدہ کے ذریعے اس پر عالمی اقتصادی پابندیاں مسلط کر دیتا۔ امریکہ نے پانچ ملکی ایٹمی کلب بھی اپنی منشاء کے غلبہ کیلئے ہی تشکیل دلوایا تھا جس کے ذریعے ایٹمی عدم پھیلائو کے نام نہاد معاہدے این پی ٹی اور سی ٹی بی ٹی طے کراکے دوسرے ممالک کو جبراً انکے بندھن میں باندھنے کی کوشش کی گئی مگر خود امریکہ نے ان معاہدوں کو خود پر لاگو کرنا ضروری نہ گردانا۔ ایسی امریکی من مرضیوں کی بنیاد پر بھارت اور اسرائیل تو ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے اسکے ’’نیلی آنکھوں والے بچے‘‘ بنے رہے ہیں جنہیں ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول اور تیاری کیلئے نہ صرف کھلی چھوٹ ملتی رہی بلکہ امریکہ اور ایٹمی کلب کے دوسرے ارکان کی جانب سے انکی مکمل معاونت بھی کی جاتی رہی۔ اسکے برعکس اپنی سلامتی کے تحفظ و دفاع کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنیوالے ممالک پاکستان‘ ایران اور شمالی کوریا کو امریکی ایماء پر عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارت نے‘ جو قیام پاکستان کے وقت سے ہی اسکی سلامتی اور خودمختاری کے درپے ہے جس کیلئے وہ اس پر جارحیت مسلط کرنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے اور اسی سازش کے تحت اسے دولخت بھی کرچکا ہے‘ 1974ء میں خود کو ایٹمی طاقت بنالیا تھا اور پوکھران میں ایٹمی دھماکے کرکے اپنے ایٹمی قوت ہونے کا اعلان بھی کردیا تھا چنانچہ پاکستان کو بھی اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے خود کو ایٹمی ٹیکنالوجی سے لیس کرنا پڑا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل نہ کی ہوتی تو اس کا ازلی مکار دشمن بھارت اسے کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا جبکہ اس نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی گھنائونی سازشوں میں اب بھی کبھی کمی نہیں آنے دی اور بھارتی جرنیلوں کے علاوہ خود نریندر مودی پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی متعدد بار گیدڑ بھبکی لگا چکے ہیں۔ پاکستان کا بھارت کے ساتھ کشمیر پر ہی بنیادی تنازعہ ہے جس پر اس نے پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی نیت سے ہی 1948ء میں تسلط جمایا تھا اور پھر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیکر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا جبکہ اس نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو بھی درخوراعتناء نہیں سمجھا اور پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدہ کے باوجود کبھی دوطرفہ مذاکرات کی بھی نوبت نہیں آنے دی۔ بھارت کی مودی سرکار اس معاملہ میں زیادہ انتہاء پسند اور شدت پسند ہے جو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی جلدی میں نظر آتی ہے جبکہ مودی سرکار نے گزشتہ سال 5؍ اگست کو بھارتی آئین پر شب خون مار کر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی اور اسے بھارت میں ضم کرلیا اور پھر کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے انہیں کرفیو کے ذریعہ گھروں میں محصور کرکے ان کا ناطقہ تنگ کر دیا۔ کشمیری عوام آج کرفیو کے 200ویں روز بھی گھروں میں محصور ہو کر بے بسی کی زندگی بسر کررہے ہیں جن پر جاری بھارتی مظالم کیخلاف پاکستان کی جانب سے ہر علاقائی اور عالمی فورم پر آواز اٹھائی گئی ہے جبکہ سلامتی کونسل‘ امریکی کانگرس‘ برطانوی پارلیمنٹ‘ یورپی یونین اور او آئی سی سمیت ہر عالمی اور علاقائی نمائندہ فورم کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت سے وہاں حالات معمول پر لانے کا تقاضا کیا گیا ہے مگر مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ اسکے برعکس وہ پاکستان کیخلاف جنگی جنون بھڑکا کر پاک بھارت سرحدوں پر عملاً جنگ کے حالات پیدا کرچکی ہے جس سے ان دونوں ممالک ہی نہیں‘ پوری اقوام عالم کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں کیونکہ پاکستان اور بھارت میں جنگ ہوئی تو یہ ماضی جیسی روایتی جنگ نہیں ہوگی بلکہ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہو جائیگی جس کی تباہ کاریوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ سال 27 ستمبر کو یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اسی تناظر میں عالمی قیادتوں کو باورکرایا تھا کہ دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ ہوئی تو اس سے پوری دنیا متاثر ہوگی۔ بھارت اس مقصد کیلئے مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ جیسا کوئی اور واقعہ دہرا کر اس کا الزام پاکستان پر لگا سکتا ہے اور اس پر جنگ مسلط کر سکتا ہے۔ اس صورتحال میں اپنی سلامتی کا دفاع پاکستان کا حق اور مجبوری ہوگا جس کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی بروئے کار لانے سمیت وہ کوئی بھی اقدام اٹھا سکتا ہے۔
میونخ سکیورٹی رپورٹ میں بھی اسی تناظر میں عالمی قیادتوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے جس کی پوری دنیا میں تباہ کاریوں سے انہیں آگاہ ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے پاکستان اور بھارت کے ایٹمی سائنس دان بھی ممکنہ ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں سے خبردار کرچکے ہیں اس لئے عالمی قیادتوں اور اداروں بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ اور اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ممکنہ ایٹمی جنگ پر منتج ہونیوالے بھارتی جنگی جنون کے آگے بند باندھیں اور دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کا باعث مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کیلئے عملی کردار ادا کریں۔ بصورت دیگر بھارتی جنونیت سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی تباہی نوشتۂ دیوار ہے۔